راولپنڈی (تھرسڈے ٹائمز) — سابق چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے گرفتاری سے قبل پارٹی ورکرز کو جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی (جی ایچ کیو) کے سامنے احتجاج کی ہدایات دینے کا اعتراف کر لیا۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید سابق وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ مجھے گرفتار کر لیا جائے گا، میں نے اپنی گرفتاری سے قبل کارکنان کو جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج کی ہدایت کی تھی، جب پارٹی چیئرمین کو رینجرز اغواء کر کے لے جائے گی تو پھر کارکنان جی ایچ کیو کے سامنے ہی احتجاج کریں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے پرامن احتجاج کو بغاوت بنا دیا گیا، اگر ہم پرامن نہ ہوتے تو یاسمین راشد جناح ہاؤس کے باہر لوگون کو اندر جانے سے نہ روکتی، ہمارے 16 لوگوں کو شہید کیا گیا، ہمارے 3 لوگوں کی ٹاںگیں کاٹی گئیں اور 1 کو معذور کیا گیا، ہمارے 10 ہزار لوگوں کو اٹھایا گیا اور انہیں سزائیں دی گئیں، ان کا خیال تھا کہ مجھے گرفتار کریں گے تو تحریکِ انصاف ٹوٹ جائے گی، جب مجھے وزیر آباد میں گولیاں لگیں تو میں نے جنرل فیصل کا نام لیا تھا، اس وقت تو کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا نہ توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سابق چیئرمین نے کہا کہ مجھ پر کیسسز ختم ہونا شروع ہوئے ہیں تو اب ان کا پلان ہے کہ مجھے ملٹری جیل بھیجا جائے، رانا ثناء اللّٰہ اور احسن اقبال نے بیان دیا کہ مجھے جیل میں رکھا جائے، ہمارے کارکنان ملٹری جیل میں پڑے ہیں، ان کا پلان ہے کہ مجھے بھی 9 مئی کے مقدمات میں ملٹری جیل میں ڈالیں اور ملٹری کورٹ لے کر جائیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ عطا تارڑ نے کہا ہے کہ میں جیل کے وی آئی پی کمرے میں ہوں، اگر وہ سچ بول رہا ہے تو آ کر مجھ سے ملے، میڈیا دو منٹ کیلئے آ کر میرے کمرے کا دورہ کرے، ڈیتھ سیل اور دہشتگردی کے مقدمات میں گرفتار ملزمان کے سیلز کی دیواریں میرے کمرے کے ساتھ ہیں۔
مخصوص نشستوں سے متعلق بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ 8 فروری کو کور کرنے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی ریویو پٹیشن پر چیف جسٹس پاکستان کو بہت جلدی ہے، چیف جسٹس سے کہتا ہوں کہ ہماری 25 مئی کے حوالے سے پٹیشن پر سماعت کیوں نہیں ہو رہی، سب کو پتا ہے کہ سپریم کورٹ میں اب یکطرفہ معاملہ چل رہا ہے، سرینہ عیسیٰ کے میرے خلاف بیانات سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو ہمارے خلاف مقدمات نہیں سننے چاہئیں۔
توشہ خانہ ریفرنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ ریفرنس میں پرانے ملازم انعام شاہ اور کسٹم آپریٹرز کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے، نیب نے ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہار کی قیمت تین ارب 18 کروڑ روپے لگائی تھی، ہم نے 50 فیصد رقم ادا کر کے 90 لاکھ روپے میں ہار خریدا تھا جو ہمارے پاس موجود ہے، نواز شریف اور آصف زرداری کے توشہ خانہ ریفرنسز کی سماعت کیوں نہیں ہو رہی؟ مجھے معلوم ہے کہ نیب نئے کیس کے بعد کوئی نیا تحفہ لے کر آئے گا اور 9 مئی کے مقدمات میں بھی میرے خلاف وعدہ معاف گواہ تیار کیے جا رہے ہیں۔
سانحہ 9 مئی کے مقدمات میں قید عمران خان نے کہا کہ گزشتہ سال 14 مارچ کو میرے وکلاء نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے اور تفتیش میں تعاون کریں گے، وکلاء کی یقین دہانی کے باوجود رینجرز اور پولیس گھر داخل ہوئی اور توڑ پھوڑ کی، میرے گھر پر 14 مارچ کو حملہ ہوا اور 18 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر پولیس دوبارہ مجھ پر حملہ آور ہوئی۔
عمران خان نے تحریکِ انصاف کے سینٹرل آفس پر پولیس چھاپے اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ہمارے پارٹی کے موجودہ چیئرمین اور ترجمان کو گرفتار کر لیا گیا؟ بیرسٹر گوہر ہمارے ایم این ایز کے دستخطوں کی تصدیق کرانے الیکشن کمیشن جا رہے تھے، انہوں نے جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی ہیں، سب کو معلوم ہے کہ ملک میں کس کی حکومت ہے اور سب جانتے ہیں ملک کو عاصم منیر چلا رہا ہے، خیبرپختونخوا میں اس وقت حالات قابو سے باہر ہیں اور عوام کا پارہ ہائی ہے۔
صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ آپ نے براہِ راست فوج پر بنوں میں فائرنگ کا الزام عائد کیا، آپ کو ایسی باتیں کون بتاتا ہے؟ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ کیا آپ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں؟
عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے اس سے بڑی بات کی ہے کہ بنوں واقعہ پر جوڈیشل کمیشن قائم کر کے حقائق کا تعین کیا جائے، مجھے ایک جیل میں قید کی سزا ہے اور دوسری جیل میں پی ٹی وی دیکھنے کی سزا دی ہوئی ہے۔
سابق چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لانے سے بہتر ہے کہ پاکستان میں سیدھا سیدھا مارشل لاء لگا دیں، ویسے بھی پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ ہے، ملکی معیشت کے بہت برے حالات ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیز ملک چھوڑ کر جا رہی ہیں اور ہمارے پروفیشنلز بیرونِ ملک منتقل ہو رہے ہیں، جو سمجھتا ہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کا حل ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ میں ہے تو وہ بیوقوف ہے، ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کا واحد حل صاف شفاف انتخابات ہیں، محسن نقوی فراڈیا ہے اور وائسرائے بنا پھرتا ہے، اس کے پیچھے بڑے صاحب ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی لہذا میں کسی سے معافی نہیں مانگوں گا، ان کو چاہیے کہ یہ مجھ سے معافی مانگیں۔
صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو جنرل (ر) فیض حمید نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر تعینات کروایا تھا؟
عمران خان نے جواب دیا کہ جنرل فیض حمید وہی کرتا تھا جو اسے جنرل قمر باجوہ کہتا تھا لیکن یہ مجھے یقین دلاتے تھے کہ ہم نیوٹرل ہیں، قمر جاوید باجوہ کمر میں چھرا گھونپنے کا ماہر تھا اور اس کی اپنی ہی گیم تھی۔
غیر ملکی جریدے میں شائع ہونے والے انٹرویو کے حوالے سے ہوچھے گئے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں اپنے وکلاء کو کچھ پوائنٹس بتا دیتا ہوں اور اسی بنیاد پر انٹرویو شائع ہوا۔