اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — خواجہ آصف نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنے کے بعد سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی اور قانون پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا، یہ میری آپ کی نہیں بلکہ پاکستان کی جنگ ہے۔
وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی ہے جس کے دوران خواجہ آصف نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو کئی سالوں سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ریاست اس بات کی اجازت نہیں دے گی اور پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گی، سپریم کورٹ اس معاملہ میں وضاحت کر چکی ہے مگر جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے، ہم کابینہ کی جانب سے سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر خدانخواستہ ریاست نے یہ کھلی چھوٹ دی تو ریاست کا شیرازہ بکھر جائے گا، سوشل میڈیا پر عوام کو قتل پر اکسانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انتہا پسندانہ پوسٹس سوشل میڈیا پر لگائی جارہی ہیں، ہمارا ایمان ہے کہ آپﷺ رحمت اللعالمین ہیں اور جب تک کائنات قائم ہے یہ رحمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا، ایک ایسے مذہب کے نام پر جو رحمت کا مذہب ہے اس پر ایسی گفتگو کی جائے تو اس سے زیادہ توہینِ مذہب کوئی نہیں، ریاست اس پر کارروائی کرے گی کیونکہ یہ سب جھوٹ پر مبنی ہے۔
راہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کئی سالوں سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، سب کو معلوم ہے کہ انہیں کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور یہ عدلیہ میں حق اور سچ کی روایت کو قائم رکھنے والی ایک آواز کو خاموش کرنے کیلئے ایک نئی شرارت ہے، ریاست اس بات کی اجازت نہیں دے گی اور قانون پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا، ہمیں اس بات کا اعادہ کرنے کی بار بار ضرورت نہیں، ختمِ نبوتﷺ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اگر اس کا بار بار اعادہ کرنا پڑا تو سمجھ لیں کہ معاشرے میں کوئی کمی ضرور ہے جو اس کی حیثیت کو بار بار اجاگر کرنا پڑ رہا ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ایمان کا اظہارِ اعمال سے ظاہر ہونا چاہیے، اس کا اظہار ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ آپ کی تقلید کریں، اسلام محبت کا پیغام ہے، اسلام کا وہ چہرہ دکھائیں جو محبت اور پیار کا چہرہ ہے، ایسا چہرہ نئی نسل اور دنیا کو نہ دکھائیں جو ہمارے دین کو کمزور کرتا ہو، جو ہمارے دین کے بنیادی تعلیمات کے منافی ہو، ریاست میں سسٹم ہوتا ہے، بے بنیاد الزام نہیں لگا سکتے، قانون میں یہ موجود ہے کہ اگر ایک الزام بےبنیاد لگایا ہے تو اس کی وہی سزا ہے جو اس الزام کے مرتکب فرد کو دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو سازش کئی سالوں سے چیف جسٹس کے خلاف چل رہی ہے اور عدلیہ آئینی معاملات پر فیصلے دے رہی ہے تو اس میں دھمکی دینے کی کوشش کو بغیر کسی ابہام کے ناکام بنایا جائے گا، ملک میں آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے، ریاست کسی گروہ کی مذہب، سیاست یا ذاتی مفادات کے نام پر ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گی، ریاست قانون کے مطابق اس قسم کے غیر قانونی اقدامات اور اس قسم کے فتوؤں کا جواب دے گی۔
اس موقع پر وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کے سربراہ ہیں، ریاستی ستون کے سربراہ کے خلاف کسی کا برملا یہ اعلان کرنا کہ جو اس کا سر قلم کرے گا میں اسے ایک کروڑ کا انعام دوں گا یہ آئین سے اور دین سے کھلی بغاوت ہے، یہ وہ طبقہ ہے جنہیں 2017 اور 2018 میں سیاسی ایجنڈے کے تحت کھڑا کیا گیا تھا، اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور کسی بھی مسلمان کی ایمان کی بنیاد عقیدہِ ختمِ نبوتﷺ ہے، کسی مسلمان کو کسی جماعت سے اپنے عقیدہِ ختمِ نبوتﷺ کیلئے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، کسی کے ایمان کا فیصلہ انسانوں نے نہیں کرنا، یہ وہ کام ہے جو خدا نے قیامت کے روز کرنا ہے، جو شخص لوگوں کے ایمان پر فتوے جاری کرتا ہے وہ خدا کے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئین، عدالتیں اور قوانین ہیں، یہاں کسی گروہ کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کے قتل کے فتوے جاری کرے کیونکہ سزا اور جزا کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہے، اگر جتھوں کو یہ اختیار دیا جائے گا تو ہر فرقے کا علیحدہ فتویٰ ہو گا، اور ملک آگ اور خون کے اندر نہلایا جائے گا، پاکستان کے علماء نے مل کر پیغامِ پاکستان کی صورت میں اس رویے کی مذمت کی تھی، ان کا فتویٰ موجود ہے کہ دہشتگردی، خود کش حملے اور فتوے بازی کا اسلام سے تعلق نہیں، اس کا اختیار صرف ریاستی اداروں کے پاس ہے۔
راہنما مسلم لیگ (ن) احسن اقبال نے نبی کریمﷺ کے ایک صحابیؓ سے متعلق واقعہ بھی سنایا اور کہا کہ غزوہ حنین میں ایک صحابی سیدنا اسامہؓ بن زید تھے، جب جنگ کے دوران وہ ایک مشرک پر غالب آ گئے اور مشرک نے دیکھا کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن صحابیؓ نے گمان کیا کہ اس نے اپنی موت دیکھ کر کلمہ پڑھا اور اسے قتل کر دیا، یہ واقعہ جب نبی اکرمﷺ کے علم میں لایا گیا تو انہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا اور صحابیؓ سے سوال کیا کہ اس کو کیوں قتل کیا جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا؟ صحابیؓ نے جواب میں بتایا کہ اس شخص نے موت کو دیکھ کر کلمہ پڑھا تو اس پر نبی پاکﷺ نے کہا کہ کیا اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے خوف سے کلمہ پڑھا؟ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام ایک انسانی جان کی حرمت پر یقین رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کہا گیا ہے کہ ایک جان کو قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنا ہے۔
وزیرِ منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ یہاں مذہب کا نام لے کر گلی اور محلے میں لوگوں کو اکسایا گیا، سیالکوٹ میں سری لنکن شخص کو جیسے مارا گیا اس پر پوری قوم کو شرمندگی برداشت کرنا پڑی، اسی طرح جڑانوالہ اور سوات اور کہاں کہاں ایک ہیجان پیدا کر کے صرف سیاست چمکانے کیلئے لوگوں کو کھڑا کیا جاتا ہے اور ان سے ایسی حرکات کروائی جاتی ہیں جو پورے پاکستان اور دینِ اسلام کیلئے باعثِ شرمندگی بنتی ہیں، پوری دنیا میں خبریں چھپتی ہیں اور دشمن مذاق اڑاتے ہیں، ہمارا ہمسایہ ملک کہ جہاں پر مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے وہ بھی اس گروہ کی سرگرمیوں کو اٹھا کر پوری دنیا میں اچھالتا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ حکومت اس طرح کی رویوں کو پنپنے کی اجازت نہیں دے گی، کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کرے، کسی کے قتل کا فیصلہ کرے، کسی ملک کے چیف قاضی کے اوپر ایسے فتوے لگائے جائیں تو نہ صرف ہم اس کی مذمت کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی تاکہ دوبارہ کوئی ایسا نہ کرے، میں بھی انھی لوگوں کا نشانہ بنا تھا، مجھ پر گولی چلائی گئی، ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت نبی پاکﷺ کے نام اور حرمت کو ایک سیاسی مقصد کیلئے استعمال کر کے مسلم لیگ (ن) کے راہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں وقت آ گیا ہے کہ ہم دینِ اسلام کے رحمت کے چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان آوازوں کی حوصلہ شکنی کریں جو اپنی سیاست کیلئے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور نبی پاکﷺ کے نام کو استعمال کر کے لوگوں میں تقسیم پیدا کرتے ہیں، آپﷺ کے نام سے عشق اور آپﷺ کے نام کی حفاظت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور اس پر مسلمان کو کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں اور نہ کسی کو اجازت دی جائے گی کہ وہ خدا اور ان کے رسولﷺ کا نام لے کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرے اور جتھے بازی کی سیاست کرے اور دین کی بدنامی کرے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، حکومت اس کے خلاف کارروائی کرے گی اور عوام سے اپیل ہے کہ ایسے لوگوں کے نعروں سے پرہیز کریں جو اپنی سیاست کیلئے دین کا نام لے کر لوگوں کو لڑاتے ہیں، ہمیں فی الحال غزہ کی طرف دیکھنا ہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ہمیں فی الوقت اتحاد کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ہر شخص مذہب کا نام لے کر اپنی سیاست چمکاتا ہے، اس قسم کی دھمکیوں سے زیادہ غیر اسلامی حرکت کوئی نہیں، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، ریاست اس قسم کے ٹرینڈ کا مقابلہ کرے گی، سوشل میڈیا پر بھی قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے، یہ ٹرینڈ ختم ہو گا، یہ میری آپ کی نہیں بلکہ ملک کی جنگ ہے، یہ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا، فیض آباد دھرنے کے بعد سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ایک فیصلے کے بعد اُس وقت کی حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کو ہدف بنایا اور ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا جس پر بعد میں پچھتاوا بھی سامنے آیا۔
وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ایسی چیزوں کو ملک میں پنپنے نہیں دیا جائے گا، یہ ملک میں فساد پھیلانے کی کوشش ہے، جب فیض آباد دھرنا ہوا تھا تو میں نے یہ بیان دیا تھا کہ یہ تحریکِ ختمِ نبوتﷺ نہیں بلکہ تحریکِ ختمِ حکومت ہے، یہ صرف سیاست کیلئے نبی پاکﷺ کا نام استعمال کر رہے ہیں، سیاست معاشی مسئلوں پر کریں، علماء سے درخواست ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف کھڑے ہوں اور قوم کی راہنمائی کریں، جب قانون موجود ہے تو کسی کے پاس فتوے جاری کرنے کا حق نہیں، عوام اور قوم کا فرض ہے کہ ان آوازوں کو خاموش کروایا جائے، اگر پاکستان کے اندر کوئی اقلیت خود کو غیرمحفوظ سمجھے تو یہ نظریہِ پاکستان کی نفی ہو گی، ہمیں ہر شہری کو تحفظ دینا ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر ہم ان چیزوں پر نوٹس نہیں لیں گے تو یہ پاکستان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دے گا، جو سازش 2017 اور 2018 میں ہوئی اور ایک ہنستی بستی معیشت کو کریش کیا گیا، اس وقت تحریکِ انصاف اور تحریکِ لبیک فیض آباد دھرنے کے ساتھی تھے، شاہ محمود قریشی تو دھرنے میں بیٹھے تھے اور انہوں نے ہمارے گھروں پر حملے کیے اور فتوے لگائے، اس سازش کی سزا آج بھی عوام بھگت رہے ہیں، امن قائم کرنا ہماری ملکی سلامتی کا تقاضا ہے کیونکہ اگر اس کی وجہ سے ہماری معیشت بحران کی طرف گئی تو پھر شاید ہمیں کوئی بیل آؤٹ پیکیج نہیں دے گا، اس معاملہ پر حکومت زیرو ٹالرنس کی پالیسی رکھتی ہے۔