جب پوری دنیا کی نظریں فلسطین پر مرکوز ہیں، پاکستان نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا تاکہ اس معاملہ پر ایک متفقہ اور مضبوط مؤقف اپنایا جا سکے، لیکن اندازہ لگائیں کہ اس اہم موقع پر کون غیر حاضر تھا؟ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف۔ جیل میں ہونا شاید کسی شادی میں شرکت نہ کرنے کا جواز تو ہو سکتا ہے مگر ایسے قومی اور عالمی اہمیت کے حامل معاملہ پر بلائی گئی کانفرنس میں شامل نہ ہونے کا بہانہ نہیں ہو سکتا۔ سیاسی قیادت جیل کی دیواروں کے پیچھے ختم نہیں ہو جاتی، عمران خان کی آل پارٹیز کانفرنس سے متعلق مکمل خاموشی اور پاکستان تحریکِ انصاف کا شرکت سے انکار ان کی ترجیحات اور عدم دلچسپی سے متعلق بہت کچھ بتا رہا ہے۔
کچھ کیلئے انتہائی اہم اور کچھ کیلئے غیر اہم
عمران خان نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنی وزارتِ عظمٰی کے دوران بھی اس مسئلہ کو اپنی تقریروں کا حصہ بنایا ہے۔ پھر اب خاموشی کیوں؟ وہ جیل میں ہیں مگر ان سے توقع کی جا سکتی تھی کہ اپنی پارٹی کے ذریعہ کم از کم فلسطین سے متعلق اس اہم اجلاس کا حصہ بننے کی کوشش کریں گے۔ پی ٹی آئی کی غیر حاضری اس بات کی علامت ہے کہ وہ فلسطین کے معاملہ پر قومی مکالمہ میں حصہ لینے سے گریزاں ہیں، شاید اُس وقت تک جب تک کہ عمران خان خود مرکزی کردار نہ ہوں۔
اہم موقع کھو دیا
قیادت وہ ہوتی ہے جو بحرانوں کے دوران ڈٹ کر کھڑی ہو، پی ٹی آئی بآسانی اے پی سی کو ایک اہم موقع کے طور پر استعمال کر سکتی تھی تاکہ قوم کو یہ دکھایا جا سکے کہ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود قومی اہمیت کے مسائل پر آج بھی اہم کردار کے طور پر موجود ہیں۔ لیکن اس کے بجائے، ان کی جماعت کی جانب سے مکمل خاموشی ملی، یہاں تک کہ عمران خان کی غیر موجودگی میں بھی، بہت سے لوگوں نے توقع کی تھی کہ ان کی ٹیم کوئی بیان جاری کرے گی یا موقف اپنائے گی کیونکہ اگر وہ جیل سے ملکی سیاسی مسائل پر ٹویٹ کر سکتے ہیں تو یقیناً فلسطین کے بارے میں بھی کچھ کہہ سکتے تھے۔
لیکن شاید اس پسپائی کی اصل وجہ سیاسی ہے، عمران خان شاید یہ حساب لگا رہے ہیں کہ خاموش رہنا انہیں سیاسی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی حالیہ رپورٹس کے مطابق یہ رائے وسیع پیمانے پر موجود ہے کہ عمران خان مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات قائم کرنے والی شخصیت بن سکتے ہیں۔
کیا عمران خان اسرائیل کے حامی ہیں؟
یہ صورتحال طنزیہ سے زیادہ حیرت انگیز ہے کہ ایسا وقت جب اسرائیل فلسطین کے مستقبل پر بحث کر رہا ہے، اسرائیلی مبصرین پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو ی ترتیب دینے میں عمران خان کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، عمران خان کے مغربی تعلقات (جیسے گولڈ سمتھ فیملی) یہ اشارہ دیتے ہیں کہ اگر پاکستان میں کوئی اسرائیل کے ساتھ بات چیت کا راستہ ہموار کر سکتا ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ عمران خان کو ایک موقع پرست کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو شاید اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے تیار ہو۔
وسیع پیمانے پر پھیلتا ہوا یہ شک عمران خان کی پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس میں غیر حاضری سے متعلق سوالات کو مزید تقویت دیتا ہے۔ کیا عمران خان نے جان بوجھ کر اے پی سی سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسرائیل کے ساتھ ممکنہ طور پر اپنے مستقبل کے معاملات میں لچک برقرار رکھ سکیں؟ ان کی خاموشی محض نظر انداز کرنا نہیں لگتی بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سیاسی چال لگتی ہے تاکہ فریقین کے درمیان مبہم رہا جا سکے۔
زندگی بھر سیاسی اتحاد نہیں
فلسطین کی صورتحال سے متعلق منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد ایک متفقہ پاکستانی مؤقف پیش کرنا تھا جو ملکی سیاست سے بالاتر ہو تاہم اس کے بجائے اے پی سی نے ملک میں جاری سیاسی تقسیم کو بےنقاب کر دیا ہے۔ عمران خان کی غیر حاضری یا شمولیت سے انکار اس چُھٹائی کی مثال ہے جو پاکستان کی سیاسی صورتحال کو بیان کرتی ہے۔ اس موقع کا استعمال کر کے قومی اتحاد ظاہر کرنے کے بجائے، عمران خان نے سیاسی دشمنیوں کو اپنی ترجیحات بنایا۔
قیادت کہاں تھی؟
عمران خان کے حامی شاید یہ دلیل دیں کہ عمران خان کی قید انہیں رعایت دیتی ہے لیکن حقیقی قیادت جسمانی طور موجودگی سے بالاتر ہوتی ہے، دنیا بھر میں قید سیاسی راہنما اہم قومی مباحثوں بالخصوص خارجہ پالیسی کے معاملات میں کسی نہ کسی طرح حصہ ضرور ڈالتے ہیں، یہاں تک کہ جیل میں بیانات دیئے جا سکتے ہیں، باہر کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں اور پیغامات بھی بھیجے جا سکتے ہیں مگر اس سب کے باوجود عمران خان کی پارٹی نے آل پارٹیز کانفرنس میں یہ خلا پُر نہیں کیا جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ غیر حاضری ایک سوچا سمجھا عمل اور نقصان دہ فیصلہ ہے۔
سیاسی چال یا واقعتاً بےحسی؟
عمران خان کا فلسطین کے حوالہ سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ان کیلئے سیاسی ”گیمز مین شپ“ ہر معاملہ حتیٰ کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ پر بھی فوقیت رکھتی ہے۔ سابق وزیراعظم کی آواز اور ان کی پارٹی کے بیانات واضح طور پر اے پی سی میں غائب تھے جبکہ جہ خاموشی محض اتفاقی نہیں بلکہ حسابی ہے۔
بطور وزیراعظم فلسطین کو اپنی خارجہ پالیسی کے بیانیہ کا مرکز بنانے والے سیاسی راہنما کی ایک ایسے وقت میں فلسطین سے متعلق مکالمہ سے دستبرداری سنگین سوالات کو جنم دیتی ہے جب اس کی رائے اہم ہو سکتی تھی، یہ خاموشی اسرائیل کے ساتھ مستقبل میں ممکنہ تعلقات کی آوازوں کے ساتھ یہ اشارہ دیتی ہے کہ عمران خان کیلئے فلسطین سیاسی شطرنج کے بڑے کھیل میں ایک پیادہ ثابت ہو سکتا ہے جبکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا پاکستان کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔