spot_img

Columns

News

اگر عمران خان کے خلاف کسی نے گواہی دی تو وہ خیبرپختونخواہ میں نہیں رہ سکے گا، علی امین گنڈاپور

عمران خان نے کہہ دیا کہ عدالتوں، آئین اور اداروں پر اعتماد نہیں تو ہم انصاف اور حق لیکر دکھائیں گے اور بتائیں گے آزادی کیا ہوتی ہے۔ عمران خان کے خلاف گواہی دینے والا خیبرپختونخواہ میں نہیں رہ سکے گا، ایک ایک دن کا حساب لیں گے، تمہارا وہ حشر کریں گے کہ نسلیں یاد رکھیں گی۔

فلسطینی میڈیکل طلباء کو پاکستانی میڈیکل کالجز میں تعلیم اور ٹریننگ فراہم کی جائے گی، اسحاق ڈار

فلسطینی میڈیکل سٹوڈنٹس کیلئے پاکستان کی جانب سے بڑا اعلان؛ غزہ میں تباہ ہونے والے میڈیکل کالجز اور ہاسپٹلز کے فلسطینی طلباء کو پاکستانی میڈیکل کالجز اور ہاسپٹلز میں بقیہ تعلیم اور ٹریننگ فراہم کی جائے گی۔

ایک سینیٹر کی تنخواہ 1 لاکھ 70 ہزار جبکہ اعلی عدلیہ کے ججز کی تنخواہ 10 لاکھ روپے سے کم نہیں، وفاقی وزیر قانون

سینٹ کے اراکین کی تنخواہ ٹیکس کٹوتی کے بعد 1 لاکھ 70 ہزار روپے جبکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہ ٹیکس کٹوتی کے بعد 10 لاکھ روپے سے کم نہیں بنتی۔ پارلیمان کو آئین کے تحت قانون سازی کا حق حاصل ہے اور اس حق کو کسی اور ادارے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

میڈیا سمیت کسی کو بغیر ثبوت کسی کی عزت اچھالنے، تہمت لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مریم نواز

میڈیا کا احترام ہے، لیکن بغیر ثبوت کے کسی کی عزت اچھالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہتک عزت قانون کے تحت، اگر الزام ثابت نہ ہو اور بدنیتی سے لگایا گیا ہو، تو الزام لگانے والے کو سزا ملنی چاہیے۔ جرم کی تصدیق ہونے پر، مجرم چاہے کسی بھی مذہب سے ہو، اسے سزا ملنی چاہیے۔ توہین مذہب کے الزامات ذاتی حساب چکانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جو غلط ہے۔ بغیر ثبوت الزام لگانا اور قانون کو ہاتھ میں لینا بڑا جرم ہے۔

افغانستان کی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، وزیراعظم شہباز شریف

افغانستان کی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ ریاستی دہشتگردی کی کھل کر مذمت کرنا ہو گی، فلسطین پر جاری اسرائیلی مظالم کا سلسلہ بند اور فلسطینیوں کو ان کا حقِ آزادی ملنا چاہیے، پاکستان القدس دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتا ہے۔
spot_img
Analysisغزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے، دی نیو یارک ٹائمز

غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے، دی نیو یارک ٹائمز

غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے، اب تک 5 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں، دو ہفتوں کے دوران الشفاء ہاسپٹل ایمرجنسی روم میں 1500 سے زائد "نامعلوم ٹراما چائلڈ" رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ غزہ میں بچے رات کو چیخ چیخ کر کہتے ”ہم مرنے والے ہیں، ہمیں بچا لیں، ہم مرنا نہیں چاہتے“۔

spot_img

نیویارک/غزہ (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ”نیو یارک ٹائمز“ کے مطابق اسرائیل نے غزہ کو بچوں کیلئے ”قبرستان“ بنا دیا ہے، اسرائیلی حملوں میں اس محصور علاقہ ”غزہ“ کے ہزاروں بچے شہید ہو چکے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کے ایک فوٹوگرافر نے 9 سالہ خالد جودہ کو مردہ خانہ کے باہر سفید کفنوں، کمبلوں اور قالینوں میں لپٹی درجنوں لاشوں کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھا جو ننگے پاؤں تھا اور روتے ہوئے کہہ رہا تھا ”میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں، میری ماں کہاں ہے؟ خلیل کہاں ہے“؟

خلیل اس کا 12 سالہ بھائی تھا، مردہ خانہ میں کام کرنے والے ایک شخص نے ایک سفید کفن کھولا تاکہ خالد آخری بار اپنے بھائی خلیل کا بوسہ لے سکے، پھر 9 سالہ خالد نے اپنی 8 ماہ کی بہن کی لاش کو دیکھا، ایک اور کفن کھولا گیا جس سے مسک نامی ایک بچے کا خون آلود چہرہ ظاہر ہوا اور خالد نے اس کی پیشانی کو چھوتے ہوئے سرگوشی کی ”ماں تمہیں پا کر بہت خوش تھیں“ جبکہ خالد کے چہرے پر آنسو جاری تھے۔

خالد نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنی ماں، اپنے باپ، بڑے بھائی اور بہن کو الوداع کیا، خاندان میں صرف خالد اور اس کا 7 سالہ چھوٹا بھائی تامر زندہ بچے تھے، ذرائع کے مطابق اس خاندان کے باقی تمام افراد 22 اکتوبر کو ایک فضائی حملے میں شہید ہوئے تھے، اس فضائی حملے میں اس خاندان کو پناہ دینے والی دو عمارتیں تباہ ہوئیں جبکہ شہید ہونے والوں کو ایک وسیع قبر میں ایک ساتھ دفن کیا گیا۔

اس دن جودہ خاندان کے 68 افراد شہید ہوئے تھے جبکہ حملہ کے وقت وہ وسطی غزہ کے دیر البلاح میں اپنے بستروں میں سو رہے تھے، فلسطینی خاندان ”جودہ“ کی کئی شاخیں اور نسلیں ہیں، یہ خاندان ایک عمارت میں پناہ لیے ہوئے تھا، خاندان کے کچھ افراد شمالی غزہ کی جانب بھی جا چکے تھے جبکہ اسرائیلی فوج نے خاندان پر حملے کے متعلق سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق شدید بمباری، ہاسپٹلز کے منہدم ہونے، بچوں کے لاپتہ ہونے اور ملبوں اور کھنڈرات میں دب جانے والی لاشوں کے باعث غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کی درست تعداد کا تعین ممکن نہیں ہے، غزہ میں ہیلتھ آفیشلز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 5 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں اور سینکڑوں مزید بچوں کے شہید ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

امریکی اخبار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا کے بڑے تنازعات میں دو درجن سے زائد ممالک کے 2985 بچے مارے گئے جبکہ صرف غزہ میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 5 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کو ختم کرنے کیلئے مجبوراً جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جنگ میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے رہائشیوں کو جنوبی غزہ کی طرف جانے کا کہا گیا ہے جبکہ ہوائی حملوں سے پہلے، اگر ممکن ہو تو، وارننگ بھی جاری کی جاتی ہے۔

لیکن ان 15 ہزار سے زائد تیز رفتار حملوں میں جنوبی غزہ کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو کہ 21ویں صدی میں اب تک کی سب سے بڑی بمباری مہم ہے جبکہ یہ حملے ایک ایسے محصور علاقہ پر کیے جا رہے ہیں جس میں نہتے شہریوں بالخصوص بچوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔

دیر البلاح کے الاقصٰی ہاسپٹل کے مردہ خانہ میں اتنے بچے لائے گئے ہیں کہ مردہ خانہ کے ڈائریکٹر یاسر ابو عمار کا کہنا ہے کہ ”لاشوں کیلئے کفن کم پڑ گئے اور مجبوراً کفنوں کو بچوں کے سائز کے مطابق ٹکڑوں میں کاٹنا پڑا، بچوں کی لاشیں ٹوٹی پھوٹی اور ٹکڑوں میں لائی جاتی ہیں، ہم نے بچوں کی اتنی تعداد میں لاشیں کبھی نہیں دیکھیں، ہم ہر روز روتے ہیں، ہم ہر روز بچوں کی لاشیں جوڑتے ہوئے روتے ہیں“۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق گزشتہ جنگوں کے دوران غزہ میں والدین اپنے بچوں کو گھروں کے اندر مختلف کمروں میں بستر پر ڈال دیتے تھے تاکہ اگر فضائی حملے میں گھر کے ایک حصہ کو نقصان پہنچے تو باقی بچے زندہ رہ سکیں جبکہ حالیہ جنگ میں وسیع پیمانے پر جاری حملوں کے باعث والدین نے بچوں کے درمیان فاصلوں کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے، وہ اپنے بچوں کو الگ کر کے غزہ پٹی کے مختلف حصوں میں رشتہ داروں کے پاس بھیجنے کی کوششیں کر رہے ہیں، بقاء کی اس جنگ میں والدین نے اپنے بچوں کے نام براہِ راست ان کے جسموں (جلد) پر لکھنا شروع کر دیئے ہیں تاکہ اگر وہ گم ہو جائیں، یتیم ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو ان کی شناخت ہو سکے، غزہ میں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، وہ کہیں بھی نہیں جا سکتے، ان دس لاکھ بچوں کیلئے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔

غزہ کے الشفاء ہاسپٹل کے ایمرجنسی روم میں ڈاکٹر غسان ابو ستہ نے بتایا ہے کہ بہت سارے بچے ایسے بھی ہیں جنہیں اس حالت میں لایا گیا کہ وہ جھلسے ہوئے تھے، ان کے جسموں پر چھریوں کے زخم تھے، وہ ملبے تلے کچلے جانے کے باعث شدید زخمی تھے جبکہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ بچے کون ہیں، وہ بچے اکیلے ہیں اور صدمے کی حالت میں ہیں، ایسے بچوں کو ”نامعلوم ٹراما چائلڈ“ کا نام دیا گیا ہے جب تک کہ کوئی انہیں پہچان نہ لے جبکہ ان میں سے کچھ بچے ایسے ہیں کہ ان کے خاندان میں ان کے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچا لہذا ان کیلئے اب کوئی نہیں آئے گا، دو ہفتوں کے دوران الشفاء ہاسپٹل کے ایمرجنسی روم میں ایک ہزار 5 سو سے زائد ”نامعلوم ٹراما چائلڈ“ رجسٹرڈ ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ بچوں کے خلاف ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق حالیہ دنوں میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ کے ہزاروں افراد کی اس پناہ ”الشفاء ہاسپٹل“ پر دھاوا بولا گیا اور یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس کے نیچے حماس کا زیرِ زمین کمانڈ سینٹر ہے، اقوامِ متحدہ کے مطابق اسرائیلی فورسز کے “الشفاء ہاسپٹل“ پر حملے نے غزہ کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور عہدیداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا کہنا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر ”وولکر تورک“ نے اسرائیل پر حماس کے حملوں کو جنگی جرائم قرار دینے کے بعد رواں ماہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہریوں کو دی گئی سزاؤں اور شہریوں کے غیر قانونی انخلاء کو بھی جنگی جرم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری میں خاص طور پر خواتین اور بچے مارے گئے ہیں جبکہ کئی معذور اور زخمی ہوئے ہیں، یہ ایک ناقابلِ برداشت چیز ہے۔

ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ 15 اکتوبر کو ”خان یونس“ کے النصر ہاسپٹل میں 24 گھنٹوں کی شفٹ پر تھے جبکہ انہوں نے ہاسپٹل کے قریب ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی اور پھر کچھ ہی دیر کے بعد ان کی اہلیہ، 12 سالہ بیٹی اور 9 سالہ بیٹے کو ایمرجنسی روم میں لایا گیا، وہ سب خون آلود اور ملبے کی خاک سے ڈھکے ہوئے تھے، ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ نے زخمی بیوی اور بچوں کو تسلی دینے کی کوشش کی لیکن پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا 7 سالہ یوسف ان کے ساتھ نہیں ہے، ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ کو بتایا گیا کہ ان کا بیٹا یوسف اب زندہ نہیں رہا، وہ مردہ خانہ کی طرف گئے جہاں انہیں یوسف کا بےجان جسم ملا۔

امریکی اخبار کے مطابق ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ کے خاندان کو کسی وارننگ کے بغیر کیے گئے اسرائیلی حملہ کے بعد ملبے سے نکالا گیا تھا، اسرائیلی حملوں میں ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ کے بھائی جاسر ابو موسیٰ نے بھی اپنے دونوں بیٹوں اور بیوی کو کھو دیا جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ خاندان پر حملے کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دے سکتی۔

غزہ میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ دماغی صحت کے شعبہ کی ایک آفیسر ندیا زعیم رفح میں ریڈ کراس کی پناہ گاہ میں چار بچوں سمیت اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بچوں میں صدمہ کی واضح علامات دکھائی دے رہی ہیں جس میں رات کی دہشت بھی شامل ہے، وہ چیختے چلاتے جاگ رہے ہیں، ہر رات بچے پناہ گاہ میں چیختے ہیں کہ ”ہم مرنے والے ہیں، ہم مرنے والے ہیں، ہمیں بچا لیں، ہم مرنا نہیں چاہتے“۔

Read more

میاں نواز شریف! یہ ملک بہت بدل چکا ہے

مسلم لیگ ن کے لوگوں پر جب عتاب ٹوٹا تو وہ ’نیویں نیویں‘ ہو کر مزاحمت کے دور میں مفاہمت کا پرچم گیٹ نمبر 4 کے سامنے لہرانے لگے۔ بہت سوں نے وزارتیں سنبھالیں اور سلیوٹ کرنے ’بڑے گھر‘ پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ کارکنوں کو کوٹ لکھپت جیل کے باہر مظاہروں سے چوری چھپے منع کرتے رہے۔ بہت سے لوگ مریم نواز کو لیڈر تسیلم کرنے سے منکر رہے اور نواز شریف کی بیٹی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے۔

Celebrity sufferings

Reham Khan details her explosive marriage with Imran Khan and the challenges she endured during this difficult time.

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
spot_img
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
error: