نئی دہلی/لندن/دبئی/اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے انٹیلیجینس آپریٹوز نے دی گارڈین سے بات چیت کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے غیر ملکی سرزمین پر رہنے والے ’’دہشت گردوں‘‘ کو ختم کرنے کیلئے ایک وسیع حکمتِ عملی تشکیل دی جس کے تحت پاکستان میں کئی افراد کو قتل کیا گیا۔
دی گارڈین کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے انٹیلیجنس حکام کے انٹرویوز اور پاکستانی تفتیش کاروں کی جانب سے شیئر کی گئی دستاویزات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس طرح بھارت کی انٹیلیجینس ایجنسی نے قومی سلامتی کے نقطہِ نظر کے تحت 2019 میں مبینہ طور پر غیر ملکی سرزمین پر قتل جیسے اقدامات کا آغاز کیا، انڈیا کی خفیہ ایجنسی “دی ریسرچ اینڈ انیلسز ونگ” براہِ راست انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول میں ہے جو کہ تیسری بار وزیراعظم بننے کی کوشش میں رواں ماہ کے آخر میں انتخابات میں حصہ لینے والے ہیں۔
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ فراہم کیے گئے اکاؤنٹس سے ان الزامات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ دہلی نے ان لوگوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کیا جنہیں وہ انڈیا کا دشمن سمجھتا ہے، جہاں یہ الزامات کچھ افراد پر سنگین نوعیت کے دہشت گردانہ جرائم کے عائد ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہیں وہیں واشنگٹن اور اوٹاوا کی جانب سے انڈیا کے خلاف سرِعام یہ الزامات عائد کیے گئے کہ انڈیا کینیڈا میں ایک سکھ راہنما سمیت کئی شخصیات کے قتل میں ملوث ہے اور یہ کہ انڈیا امریکہ میں بھی ایک سکھ پر قاتلانہ حملہ کرا چکا ہے۔
تازہ ترین دعوے 2020 کے بعد پاکستان میں نامعلوم مسلح افراد کے ذریعہ کم و بیش 20 افراد کے قتل کی جانب اشارہ کرتے ہیں، اگرچہ انڈیا پہلے غیر سرکاری طور پر قتل کے ان واقعات سے منسلک رہا ہے تاہم اب پہلی بار انڈین انٹیلیجینس کے اہلکاروں نے پاکستان میں کیے گئے ان مبینہ آپریشنز کا ذکر کیا ہے اور ان قتل کے اقدامات میں را کی مبینہ طور پر براہِ راست مداخلت کے حوالہ سے تفصیلی دستاویزات دیکھی گئی ہیں، الزامات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ خالصتان تحریک کے علیحدگی پسند سکھوں کو انڈین فارن آپریشنز کے تحت پاکستان اور مغربی ممالک میں ٹارگٹ کیا گیا۔
دی گارڈین نے لکھا ہے کہ پاکستانی تفتیش کاروں کے مطابق یہ ہلاکتیں ہندوستانی انٹیلیجنس سلیپر سیلز کے ذریعے کی گئیں جو کہ زیادہ تر متحدہ عرب امارات سے کام کر رہے تھے، سال 2023 میں ان قتل کے واقعات میں اضافے کی وجہ ان سلیپر سیلز کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ہیں جن پر مقامی مجرموں یا غریب پاکستانیوں کو قتل کرنے کیلئے لاکھوں روپے لینے کا الزام ہے، انڈین ایجنٹس نے مبینہ طور پر کچھ جہادیوں کو بھی اس کام کیلئے بھرتی کیا جبکہ انہیں یقین دلایا گیا کہ وہ کافروں کو مار رہے ہیں۔
انٹیلیجنس معلومات بتاتی ہیں کہ 2023 کے دوران ٹارگٹ کلنگ میں بتدریج اضافہ ہوا ہے جبکہ انڈیا 15 افراد کے قتل میں ملوث ہے اور زیادہ تر افراد کو مسلح حملہ آوروں نے قریب سے نشانہ بنایا، مارچ 2022 کے دوران کراچی میں حملے کیلئے افغانی شہریوں کو مبینہ طور پر لاکھوں روپے دینے گئے، وہ بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوئے تاہم بعدازاں ان کے ہینڈلرز کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار کر لیا۔
پاکستان کی جانب سے اکٹھے کیے گئے ثبوتوں کے مطابق قتل کے ان واقعات کو باقاعدگی سے متحدہ عرب امارات سے کوآرڈینیٹ کیا جاتا ہے جہاں انڈین ایجنسی (را) نے سلیپر سیلز رکھے ہوئے ہیں، انڈیا کو مطلوب جیشِ محمد کے کمانڈر شاہد لطیف کو قتل کرنے کیلئے کئی حملے کیے گئے اور دستاویزات کے مطابق بالآخر ایک 20 سالہ ان پڑھ پاکستانی لڑکے نے اکتوبر میں شاہد لطیف کو قتل کیا جبکہ مبینہ طور پر یہ پلان انڈین ایجنسی را نے متحدہ عرب امارات میں تیار کیا جہاں وہ لڑکا ایمازون پیکنگ وئیر ہاؤس میں معمولی تنخواہ کے عوض کام کرتا تھا، پاکستانی تفتیش کاروں نے یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ مبینہ طور پر اس لڑکے کو ایک اعشاریہ پانچ ملین پاکستانی روپے فراہم کیے گئے جو کہ ایک انڈر کور انڈین ایجنٹ نے شاہد لطیف کو قتل کرنے کیلئے دیئے جبکہ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ مزید 15 ملین روپے دیئے جائیں گے اور یو اے ای میں ایک کیٹرنگ کمپنی بھی بنا کر دی جائے گی، لڑکے نے شاہد لطیف کو سیالکوٹ میں ایک مسجد کے اندر قتل کیا تھا جبکہ کچھ ہی دیر میں لڑکے کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی نے جنوری میں ایک پریس کانفرنس کے دوران قتل کے دو واقعات کا ذکر کیا تھا جبکہ انڈیا پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں قتل جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔
دی گارڈین کے مطابق گزشتہ مئی کے دوران خالصتان تحریک کے ایک راہنما پرمجیت سنگھ پنجور کو لاہور میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا جبکہ پاکستانی تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پنجور کو ان کے قتل سے ایک ماہ قبل خبردار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے جبکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے ایک اور خالصتان تحریک کے کارکن کی جان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ انڈین ایجنٹس نے اس حوالہ سے مبینہ طور پر ہندوستانی ریاست کیرالہ کے سابق آئی ایس جنگجوؤں سے مدد حاصل کی تھی جو آئی ایس کیلئے لڑنے افغانستان گئے تھے لیکن 2019 کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور پھر انھیں سفارتی ذرائع سے واپس لایا گیا تاکہ ان کے ذریعہ جہادی نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کی جا سکے، پاکستانی ایجنسیز کی تحقیقات کے مطابق پنجور کا قاتل، جسے بعد میں پکڑا گیا، مبینہ طور پر یہ سمجھتا تھا کہ وہ پاکستانی طالبان سے منسلک بدری 313 بٹالین کی ہدایات پر کام کر رہا تھا اور اسے اسلام کے دشمن کو مار کر خود کو ثابت کرنا تھا۔
برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کے الزامات، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں، ان مغربی ممالک کیلئے مشکل سوالات پیدا کر سکتے ہیں جنہوں نے مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے ساتھ گہرے اسٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات استوار کیے ہیں جبکہ ان تعلقات میں انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے بھی شامل ہیں۔