لوگ غلطی یہ کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ایک علیحدہ فیصلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس فیصلے کےحوالے سے لوگوں کے پاس قانونی نکات بھی ہیں، آئینی اختراعات بھی، عدالتی تاریخ بھی اور آئین کی شقیں بھی۔
This article was originally published on WE News.
لوگ اس فیصلے میں بینچ کی تشکیل، الیکشن کمیشن کی فریاد، قاضی فائز عیسیٰ کے سرکلر، پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد اور صدرِ مملکت کے احکامات کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ سب باتیں فروعی ہیں۔ یہ فیصلہ، یہ عدالت، یہ دلائل تو نئے ہیں مگر فیصلہ نیا نہیں۔ یہ فیصلہ تاریخ میں پہلے بھی کئی بار لکھا جاچکا ہے۔ لوگ نہیں جانتے کہ یہ فیصلہ پہلے بھی ہمارا مقدر ہوچکا ہے۔ پہلے بھی جمہوریت کو ڈس چکا ہے۔
ہم خیالوں کو نئے انتخابات کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ کوئی سوال نہیں پوچھ رہا کہ اسمبلیاں کیسے ٹوٹیں؟ عوام کے مینڈیٹ کو کس طرح خاک میں ملایا گیا؟ کس طرح ایک ضدی شخص کی بھینٹ سارے ملک کو چڑھایا گیا؟ نہ اس کے بارے میں کوئی سماعت ہوئی، نہ اس کے بارے میں کوئی دلیل سنی گئی، نہ اس کے بارے میں کوئی حکم آیا۔
آپ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس سے پہلے تو کبھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن کا مسئلہ اس طرح عدالتوں میں نہیں رگیدا گیا۔ اس سے پہلے تو کبھی الیکشن کمیشن کی آزاد حیثیت کی توہین نہیں کی گئی۔ اس سے پہلے تو کبھی صدرِ مملکت کا عہدہ ایک پارٹی ورکر کی طرح استعمال نہیں ہوا۔ یہ سب تو نیا ہے پرانا کچھ بھی نہیں۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک عہد کی تکمیل یا تقسیم کا فیصلہ تھا۔ اس میں فیصلہ ہونا تھا کہ ہائبرڈ نظام ختم ہونا ہے یا ابھی جاری رہنا ہے۔ جنرل فیض حمید کا دورِ اقتدار ختم ہوا یا ابھی ان کی باقیات کا راج ہونا ہے۔ جنرل باجوہ کے معذرت خواہانہ انٹرویوز کا سلسلہ بند ہونا ہے یا ابھی اس میں مزید انکشافات کی گنجائش موجود ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا بھی فیصلہ ہے کہ ابھی میڈیا میں موجود پیرا شوٹرز کا استعمال باقی ہے یا انہیں چلے ہوئے کارتوس کی طرح ضائع کردینا ہے۔
فیصلہ صرف اس بات کا نہیں ہونا تھا کہ الیکشن کب ہونے ہیں، فیصلہ اس بات کا بھی ہونا تھا کہ کیا ہم خیالوں کا ٹولہ اب بھی من مانی کرے گا یا آنے والے دور سے خوفزدہ ہوکر محاذ سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ فیصلہ اس بات کا بھی ہونا تھا کہ درِ انصاف کس حد تک بے انصافی پر مصر رہے گا۔ فیصلہ اس بات کا بھی ہونا تھا کہ قائد کے ساتھی قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے کو اس ملک میں تکریم ملنی ہے کہ نہیں۔ فیصلہ اس بات کا بھی ہونا تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کا دلیرانہ اقدام اب قابلِ تعریف بن چکا ہے یا اب بھی قابلِ مذمت قرار دیا جا رہا ہے۔ فیصلہ اس بات کا بھی ہونا تھا کہ جج ارشد ملک کو نازیبا ویڈیو دکھا کر فیصلہ کروانے والی قوتیں شکست مان گئی ہیں یا ابھی بھی اپنے غیر جمہوری ایجنڈے پر مصر ہیں۔
لوگ سمجھ رہے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ آگئی، آئینی بحران ختم ہوگیا، عمران خان کو فتح مبین نصیب ہوئی، اب ملک آگے بڑھے گا، اختلافات ختم ہوں گے اور اتفاق کی صورتحال پیدا ہوگی۔ نفرت کا بیج سماج سے نکال دیا جائے گا اور اب محبت کی فضا پروان چڑھے گی۔ یہ خام خیالی بہت سے لوگوں کی ہے۔ یہ فیصلہ مزید ابہام اور نفاق کو بڑھائے گا۔
اب ہم خیال گروپ آخری بازی کھیل چکا ہے۔ اس بازی کا ادراک جاوید ہاشمی کو 2014ء میں ہوچکا تھا۔ اس فیصلے کا علم عوام کو 2018ء میں ہوچکا تھا۔ اس ملک کے عوام کے لیے نہ یہ فیصلہ نیا ہے نہ عدالت کی یہ بے انصافی۔ بھٹو کے قتل سے لیکر ہر آمر کے حق میں فیصلے دینے والے آج بھی زندہ ہیں۔ آج بھی ترازو کے پلڑے برابر نہیں۔ آج بھی میزان طاقتوروں کی جانب جھکا ہوا ہے۔
یہ فیصلہ صرف ایک انتخابی مرحلے کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ فیصلہ ملکی سیاست کا بھی فیصلہ تھا۔ اس میں پوشیدہ حقائق بتا رہے ہیں کہ (ن) لیگ کو ان کا حق نہیں لینے دیا جائے گا۔ پنجاب کا کوئی والی وارث نہیں ہوگا۔ نواز شریف کو واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔ مریم نواز کو حق بات ببانگِ دہل نہیں کرنے دی جائے گی۔
فیصلہ اس بات کا بھی ہوا ہے کہ بلاول بھٹو کی فراست کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مولانا فصل الرحمٰن کی 73ء کے آئین والی سب تقاریر اکارت گئیں۔ جمہوری جماعتوں کی ساری جدوجہد تمام ہوئی۔ پارلیمان کی بالادستی خواب ہوئی۔ عوام اور عوامی نمائندگان کی حکومت سراب ہوئی۔ ہم خیال ٹولے کی حکومت عذاب ہوئی۔
فیصلہ اس بات کا تھوڑی ہونا تھا کہ ٹوٹے بینچ پر اعتراض واجب ہے کہ نہیں یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اعتراض درست ہے کہ نہیں۔ فیصلہ تو اس بات کا ہونا تھا کہ اس ملک میں پارلیمان کی حکومت ہے یا ہم خیال ٹولے کی۔
اس ملک میں عوامی نمائندگان کو عزت نصیب ہوگی یا پھر مقتدرہ کی چیرہ دستیاں جاری رہیں گی۔ فیصلہ اس بات کا ہونا تھا کہ حاکمیت آئین کی ہے یا پھر حکومت چند لوگوں کی ہے۔ فیصلہ تو اس بات کا ہونا تھا کہ جمہوریت ہمیں قبول ہے یا ابھی بھی ہم اس کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سچ پوچھیں تو یہ فیصلہ اس بات کا بھی ہونا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے یا پھر ابھی تک ہائبرڈ نظام کی باقیات سے بلیک میل ہو رہی ہے۔ فیصلہ تو اس بات کا بھی ہونا تھا کہ درِ انصاف کو عوام کی منشا قبول ہے یا پھر بیگمات کی مرضی مقصود ہے۔ فیصلہ اس بات کا بھی ہونا تھا کہ غلامی کی زندگی قبول ہے یا زلمے خلیل زاد کی مرضی عزیز ہے۔
سب سے بڑھ کر فیصلہ اس بات کا ہونا تھا کہ یہاں سیاست میں نواز شریف کا طرزِ عمل چلنا ہے یا شہباز شریف کی اطاعت کو تسلیم کرنا ہے۔ جوتے کھانے ہیں یا سر اٹھانا ہے۔ کلمہ حق کہنا ہے یا منہ پر قفل لگانے ہیں۔ ہم خیال ٹولے کا احترام کرنا ہے یا اس کے خلاف تحریک چلانی ہے۔
عمران خان سے خوفزدہ ہوکر حکومت کرنی ہے یا آئین کے مطابق ان کو غیر آئینی حرکتوں کی سزا دینی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا شوق پورا کرنا ہے یا پھر وزیرِاعظم بن کر دکھانا ہے۔
شہباز شریف کو اصلاحات اس وقت یاد آئیں جب وقت گزر چکا تھا۔ جب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور حکومت کی بے بسی کا جنازہ جا رہا تھا۔
یاد رکھیں۔ ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہ ہوں تو اس کو میزان نہیں ‘مرضی’ کہتے ہیں اور اس مرضی کو تسلیم کرنا بھی جرم کے ارتکاب کے مترادف ہے۔