“میں یہاں جن حالات میں بچے کو لے کر آتی ہوں وہ سوچتا ہے کہ یہاں کسی کمرے میں اس کا باپ ہو گا۔ اس کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے باپ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ بڑا ہو گا تو اس کی سوچ کیا ہو گی اور یہ کیا کرے گا؟ میں یہ سوچتی ہوں کہ جب ہم سکول میں تھے تو جب آرمی چیف کی گاڑی دیکھتے تھے، سیلوٹ میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ ہم نے تو 71 میں فوجیوں کو گفٹ بھیجے، ہمارے دل میں تو فوج کی اتنی عزت تھی بھی اور اب بھی ہے؛ لیکن جب یہ بچہ بڑا ہو گا تو نفرت کی کس سیڑھی پر کھڑا ہو گا؟ میرا دل کانپ جاتا ہے کہ اس طرح کے اور بھی بچے ہیں، ان کی سوچ کیا ہو گی؟ کیا بنے گا؟
رندھی ہوئی آواز میں بولنے والی یہ مدثر نارو کی بوڑھی والدہ تھیں۔ جو اسد طور کے پوچھے گئے سوال کا جواب دے رہی تھیں۔
مدثر نارو کی والدہ کے لہجے میں چھپے کرب سے زیادہ مجھے ان کے سوال نے غمزدہ اور پریشان کر دیا اور سوچنے پر مجبور بھی کہ جب ریاست کے پاس آئین و قانون موجود ہے اور وہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد اور قانون شکن عناصر کو قانون کے مطابق گرفتار کر کے عدالتوں سے سزا دلوا سکتی ہے تو پھر ماورائے عدالت لاپتہ کیوں کرتی ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے وہ پیارے جو آنکھوں کے سامنے مر جاتے ہیں ان پر صبر آ جاتا ہے کیونکہ اپنے ان پیاروں کو خود اپنے ہاتھوں مٹی کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن وہ جو انجانی راہوں میں کھو جائیں ان پر صبر نہیں آتا۔ ہر لمحہ، ہر گھڑی ان کے لوٹ آنے کی امید بندھی رہتی ہے اور ہر آہٹ پر گماں ہوتا ہے کہ شاید وہ لوٹ آیا۔
بلوچ قوم پرستوں، سندھ قوم پرستوں، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور اہلِ علم و دانش کو لاپتہ کرتے ہوئے ریاست یہ حقیقت کیوں فراموش کر دیتی ہے کہ جب ان کے پسماندگان کو یہ جواب نہیں ملتا کہ ان کے پیارے کیوں لاپتہ ہیں تو بدلے کی خواہش ان کے دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور ملک دشمن عناصر کے لیے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مجرم کو سزا دلوانے سے ان کے گھر والے یہ تو جان سکتے ہیں کہ ان کے پیارے کونسی غلط سرگرمیوں میں ملوث تھے اور کس جرم کی انہوں نے سزا پائی؟
یہی بات گزشتہ سال بلوچستان سے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دھرنا دینے والی ایک لڑکی نے بھی کی جو اپنے بھائی کی گمشدگی پر افسردہ و غمزدہ تھی اور ریاست کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ شاید کئی سال سے لاپتہ بھائی کا کچھ سراغ مل جائے۔ کچھ نے تو یہاں تک بھی کہا کہ ہمیں بس یہ بتا دیا جائے کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں؛ تاکہ دل کو صبر آ جائے۔
لاپتہ افراد کے بارے میں جب بھی بات ہوتی ہے تو مجھے عطاء اللہ مینگل کے بڑے بیٹے اسد اللہ مینگل کی گمشدگی یاد آ جاتی ہے۔ یقینی طور پر وہ پاکستان کے پہلے سیاسی لاپتہ تھے جنہیں 1976 میں ان کے دوست کے گھر سے اٹھایا گیا اور غالب امکان یہی ہے کہ اغواء کے دوران ہونے والی مزاحمت میں شدید زخمی ہوئے اور راستے میں کہیں مارے گئے۔ بہرحال بہت سال تک ان کے گھر والے یہ نہیں جان پائے کہ وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔
عطا اللہ مینگل کہتے ہیں کہ جب 1978 میں ان کے دوسرے بیٹے کے گھر بچے کی ولادت ہوئی اور اس کا نام اسد اللہ رکھا گیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اسد اللہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ مشرف دور میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے بعد بڑے پیمانے پر سامنے آیا جب ریاستی اداروں نے اولین بلوچ قوم پرست افراد کو اغواء کیا اور پھر یہ سلسلہ سندھی قوم پرستوں سے ہوتے ہوئے سماجی کارکنوں اور صحافیوں تک وسیع ہوتا چلا گیا۔ لاپتہ افراد کا کیس لڑنے والے وکیل کرنل انعام رحیم کہتے ہیں کہ اس وقت دو ہزار دو سو 52 افراد لاپتہ ہیں اور 31جنوری کی ایک رپورٹ کے مطابق 221 افراد کی لاشیں ان کے ورثا کے حوالے کی گئی ہیں۔ 2ہزار کا فگر بہت بڑا ہے اور ریاست کو سوچنا ہو گا کہ اگر لاپتہ افراد کے ورثہ ریاست کے خلاف نفرت اور اپنے پیاروں کی گمشدگی کا بدلہ لینے کی سوچ کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں تو ملک دشمن اور تخریبی عناصر کے لیے انہیں استعمال کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔
معاشی ناہمواری اور روزگار کے محدود ہوتے مواقع کے ساتھ ساتھ ریاست کی ماورائے عدالت کاروائیاں معاشرے میں تشدد اور جرائم کو پروان چڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کا حل سوچنا ریاست کے سیکورٹی اداروں سے منسلک افراد کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “ہم جتنی بھی ڈائریکشنز دے لیں وہ بےمعنی ہو جاتی ہیں اگر ریاست اپنے شہریوں کے اغواء میں خود ملوث ہو۔”
ہمیں تو پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا لیکن اس وقت ہم جس پاکستان میں جی رہے ہیں وہ سیکورٹی سٹیٹ بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی وجوہات پر غور کرنے کے لیے جس مخلصانہ رویے اور سوچ کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس معاشرے میں تنقید کو غداری اور اصلاح کرنے کی کوششوں کو ملک دشمنی سمجھا جاتا ہے اور ایسے قوانین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے جو عوام کو اور اہلِ قلم کو زبان بندی پر مجبور کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مزید بگاڑ سے بچا جا سکے؟
ریاست کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ غدار کہنا، وطن دشمن قرار دینا اور اظہارِ رائے پر پابندی لگا دینا ان مسائل کا حل نہیں ہے۔ اگر یہ حل ہوتا تو ہماری تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ نہ ہوتا۔
اگر ہمیں مزید سانحات سے بچنا ہے اور ملک کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کے راستے پر ڈالنا ہے تو ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا ہو گا اور عوام کو وہ تحفظ، اعتماد، تربیت، تعلیم اور شعور دینے کے ساتھ ساتھ بولنے کی آزادی اور آگے بڑھنے کے لیے وسائل بھی مہیا کرنا ہوں گے۔
جب تک ریاست کا رویہ ماں کی طرح رحمدلانہ، مساویانہ اور شفقت بھرا نہیں ہو گا ایک مستحکم، مضبوط اور پائیدار فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
The contributor, Naddiyya Athar, is a Master of Urdu Literature with a Bachelors in Education. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. Being keenly fascinated by the ever-changing scope of politics in the country, Naddiyya is an avid bibliophile.
Reach out to her @naddiyyaathar.