پچیس مئی بدھ کا دن ایک ایسا دن تھا جسےہماری قومی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن اور ایک بھیانک یاد کی صوعت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔میں اپنی ذاتی وجوہ اور کچھ گرد بیٹھنے کے انتظار میں یہ کالم کچھ تاخیر سے پیش کر رہا ہوں۔ یہ دن تقاضا کرتا تھا کہ ہم ایک قوم ہو کر بھارت کی طرف سے کشمیری جدوجہد آزادی کے ایک نمایاں ایکٹوسٹ یٰسین ملک کی سزائے عمر قید کے خلاف بھر پور احتجاج کرتے۔ لیکن کشمیر کو باقاعدہ ہڑپ کرنےپر ہماری اس وقت کی عمران حکومت نے محض ایک منٹ کی خاموشی کو کافی سمجھا تو آج بھلا وہ کیوں اس پر ایک قومی اور مضبوط مؤقف اختیار کرنے کا تردد کرتے۔ یٰسین ملک کی بیوی اور معصوم بچی کی فریاد سے جن کے دل نہیں پسیجے ان کو کیا کہا جائے ، اگر عمران خان اس مظلوم کشمیری خاتون اور اس کی معصوم بچی کی آہ و فریاد پر اپنا احتجاج ایک دن کے لئے مؤخر کر دیتے تو شاید اس شرمندگی کے ساتھ انھیں واپس نہ لوٹنا پڑتا جس شرمندگی سے واپس ہوئے اگرچہ ان کے لانگ مارچ سے حکومت کو تو کچھ نہیں ہونا تھا لیکن اگر وہ کئے گئے دعووں کے چوتھائی عوام کو بھی جمع کر سکتے تو ان کے وفا دار ٹی وی چینل اس مجمع کو پچیس لاکھ بنا کر پیش کر سکتےلیکن عمران خان جس ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اس سے اترتا کوئی نہیں ہمیشہ منہ کے بل گرتاہے۔
جمہوری معاشروں میں احتجاج کا حق ایک بنیادی جمہوری حق ہے اس حق کو عمران خان نے برسراقتدار آنے سے پہلے خوب خوب استعمال کیا اور ایسٹیبلشمنٹ کا اصرار تھا کہ احتجاجیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونا چاہیئے۔عمران خان برسراقتدار آئے توانھوں نے لانگ مارچ اور احتجاجی جلسے جلوسوں کے خلاف اپنا بیان بدل دیا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ”میں انسانوں میں دنوں کو بدلتا رہتا ہوں۔“ جب اللہ تعالٰی نے دنوں کے الٹ پھیر سے عمران خان کوپھر وہاں لا کھڑا کیا جہاں سے ان کا سفر شروع ہؤا تھا تو انھیں پھر یاد آگیا کہ احتجاج ایک جمہوری حق ہے۔لیکن دنوں کے الٹ پبیر کے الٰہی قانون کے تحت ایک اور چیز بھی بدل چکی تھی یعنی ایسیٹبلشمنٹ کی سرپرستی۔دنیا جانتی تھی اور برملا کہا جارہا تھا کہ ایسٹبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر عمران خان کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے لیکن عمران خان اور ان کے چند ان حواریوں کے لئے جنھیں کہیں اور کوئی ٹھکانہ میسر نہیں آخری داؤکھیلنا ضروری تھا۔ ان حواریوں نے عمران خان کی حد سے بڑھی ہوئی انا،عاقبت نااندیشی اوراقتدار کی اندھی ہوس کا فائدہ اٹھا کر ایک قومی المیہ تخلیق کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ بھلا پر امن احتجاج کے لئے اسلحےکے انبار لگانا کارکنوں میں میں ڈنڈے اور لاٹھیاں کون تقسیم کرتا ہے اور لانگ مارچ کے خونی ہونے کے مسلسل اعلانات چہ معنی دارد؟یہ محض الزام یا خیال آرائی نہیں اس کے ثبوتوں سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔
عمران خان کو باالآخر یقین آگیا تھا کہ ایسٹیبلشمنٹ ان کی سر پرستی سے ہاتھ اٹھا چکی ہے۔ کبھی وہ ایسٹیبلشمنٹ کو غیر جانب دار ہونے پر اللہ سے ڈراتےکبھی اسے جانور ہونے کا طعنہ دیتے۔ ان کی ہائے فریاد سے صاف پتہ چلتا تھا کہ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی حمایت کے رات دن تاکہ وہ ایسٹیبلشمنٹ پر ذمہ داری ڈال کر خود تصور جاناں کے مزے لیتے رہیں ۔ لیکن ہائے افسوس کہ ایسا نہ ہؤا اور جب عمران خان کو احساس ہوگیا کہ ایسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو نہیں آنے والی تو انھیں یہ غم کھانے لگا کہ ایسٹیبلشمنٹ حکومت کےساتھ نہ کھڑی ہوجائے چنانچہ آخری بار انھوں نے ایسٹیبلشمنٹ سے کہا اچھا غیر جانب دار تو پھر غیر جانب دار ہی رہنا۔عمران خان کو ابتدا سے معلوم ہوگیاتھا کہ پچیس لاکھ تو دور کی بات ہے پچیس ہزار بھی جمع کرنا مشکل ہے۔عمران خان اور اس کے مایوس حواریوں نے دوسرے طریقوں سےحالات خراب کرنے کی کوشش کی۔ ڈی چوک میں کسی احتجاج کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود تھا بابر اعوان نے عمران خان سے مشورے کے بعدعدالت کو خود کہا کہ ایچ نائین پر اجتماع کرلیتے ہیں۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ جگہ کا فیصلہ عدالت نہیں ہم خود کریں گے۔ یہ ساری باتیں لمحہ بہ لمحہ میڈیا پر آرہی تھیں۔عدالت ان سے بے خبر نہیں رہی ہوگی اور عمران خان کا بے خبر رہنا بھی ناممکن ہے بابر اعوان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی ذمہ داری تھی کہ انہیں عدلیہ کے احکامات سے آگاہ گرتے اور یقیناً کیا بھی ہوگا۔۔ فاضل چیف جسٹس کا عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے عمران خان کو صحیح خبر نہ ملی ہو، صریح طور پر انصاف کے اصولوں سے انحراف کے مترادف ہے۔ ان کا یہ جواز تجاہل عارفانہ کے سوا کچھ نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ ایک عالمی اصول اور قانون ہے کہ کسی کی کسی قانون سے لاعلمی اس کے جرم کا جواز نہیں بن سکتی۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ، اگر کوئی شخص یک طرفہ (ون وے) پر چلا جا رہا ہو اور پولیس اسے پکڑ لے اور پکڑے جانے والا کہے کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ یک طرفہ شاہراہ ہے، تو اسے معاف کردیا جائے گا؟اگر اس جواز کو تسلیم کر لیاجائے تو پھر ہر مجرم قانون سے بےخبری کا جواز دے کر سزا سے بچ جائے گا۔
اس لانگ مارچ کی تیاری ہی تشدد گھیراؤ جلاؤ اور تشدد کی بنیاد پر ہوئی تھی لاہور میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر آنسو گیس استعمال کی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ ہتھیار پی ٹی آئی کے کارکنوں کے پاس کہاں سے آگیا کیا آنسو گیس بازار میں عام ملتی ہے؟ لاہور میں ایک پولیس والے کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کا یہ عذر بالکل غلظ ہے کہ میجر ساجد کے بیٹے نے حفاظت خوداختیاری میں گولی چلائی، پولیس کی طرف سے گولی چلانے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا اور محض گرفتاری کے خوف سے حفاظت خود اختیاری کا حق حاصل نہیں ہو جاتا، حفاظت خود اختیاری کا حق جان کو حقیقی خطرہ لاحق ہونے پر ہی استعمال ہو سکتا ہے۔اس پرتشدد معرکے میں کئی دوسرےپولیس والے بھی شہید اور زخمی ہوئے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہلاکت بھی باعث افسوس ہے۔جوتوڑ پھوڑ اور آتش زنی ہوئی ہے اس کے نقصان کا اندازہ اربوں میں ہے آنسو گیس سے بچنے کے لئے درختوں کو جلانے کی انوکھی عدالتی منطق بھی پہلی بار سنی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن کوئی بڑا شو تو پیش نہیں کرسکے لیکن جس طرح لوٹ مار اور توڑ پھوڑ اور تشدد کیا ہے وہ اس نام نہاد پر امن احتجاج کی قلعی کھول رہاہے۔ اس پر قتیل شفائی کی ایک غزل لفظ بہ لفظ درست بیٹھتی ہے۔ شاعر بعض اوقات مستقبل میں دیکھ رہا ہوتا ہے جیسا علامہ اقبالؒ نے فرمایا،
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ ء افکار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویردیکھ
لگتا ہےقتیل شفائی نے اس غزل میں پی ٹی آئی کے ”پرامن“ لانگ مارچ کی ہو بہو تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے۔اور بہت درد مندانہ اور قابل غور باتیں بھی کی ہیں۔
رشتہء دیوار و در تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
مت جلااس کو یہ گھر تیرا بھی ہے میرابھی ہے
تیرےمیرے دم سےہی قائم ہیں اس کی رونقیں
میرے بھائی! یہ نگر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کیوں لڑیں ہم ا یک ایک سنگِ میل پر
اس میں نقصانِ سفر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
شاخ شاخ اس کی ہمیشہ بازوئے شفقت بنی
سایہ سایہ یہ شجر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کھاگئ کل ناگہاں جس کو فسانوں کی صلیب
ان میں اک نورِ نظر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اپنی حالت پر نہیں تنہا کوئی بھی سوگ وار
دامن ِدل تر بتر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کچھ تو ہم اپنے ضمیروں سے بھی کرلیں مشورہ
گرچہ رہبر معتبر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
غم تو یہ ہے گر گئی دستارِ عزت بھی قتیل ورنہ ان کاندھوں پہ سر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے۔