کمرے میں ایک گھمبیر سناٹا چھایا ہوا ہے اور سامنے دیوار کے ساتھ ایک تابوت پڑی ھے جبکہ چند خواتین اور مرد بھی خاموش کمرے کے مختلف کونوں میں ساکت کھڑے ہیں۔ دو چار فوجی سپاہی تابوت کو سیلوٹ مار کر خلاف معمول قدرے بے ڈھنگے طریقے سے واپس مڑتے ہیں اور ایک خاتون سسکیاں لیتی ہوئی ایک مرد کے ساتھ اس تابوت کی طرف بڑھتی ھے جسے نوحہ خوانی اور سوگ کی عبرت آمیز قلت کا سامنا ھے۔
تھوڑی دیر بعد ایک اور منظر سامنے ھے۔ فوجی دستوں نے ایک میدان کو گھیرے میں لیا ہوا ھے اور وہی تابوت سامنے رکھا ھے بڑی بڑی گاڑیوں سے چند بڑے بڑے لوگ اتر رھے ہیں لیکن تلاشی کا عمل پھر بھی انتہائی سخت ھے کیونکہ معاملہ حد درجہ “حساس” ھے۔ شرکاء کی محدود تعداد میں اکثریت فوجی افسران کی ھے تا ہم تھری پیس سوٹوں میں ملبوس اشرافیہ کی ایک قلیل تعداد کی نمائندگی بھی ھے۔ جن کے چہروں سے دکھ اور سوگ کی بجائے ضرورت اور مجبوری ٹپک رہی ھے۔ جنازہ ادا کر دیا گیا تو باوردی سپاہیوں نے تابوت اٹھا لیا اور سابق آمر پرویز مشرف اللہ تعالی کی عدالت اور اپنی قوم کی تاریخ کے سپرد کر دیئے گئے۔
پرویز مشرف تاریخ کے واحد آدمی تھے جن کی موت پر پورے ملک میں سوگ کی بجائے ایک تنازعہ کھڑا ہوا۔ کیونکہ قوم جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم کے فیصلے جبکہ طاقتور طبقہ اپنی انا کے ساتھ متضاد سمت میں اس حد تک دور کھڑے نظر آئے کہ سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین پر نہ صرف شدید عوامی ردعمل ابھرا بلکہ سینیٹ آف پاکستان نے فاتحہ خوانی کرنے سے بھی انکار کیا۔ دوسری طرف منصب کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے یک سطری تعزیتی بیان تو جاری کر دیا لیکن تمام سویلین سیاسی حلقوں نے کسی تعزیتی تقریب میں شرکت تو درکنار الٹا جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم کے دلیر فیصلے کا علم لہراتے دکھائی دیئے۔ یہ ھے وہ تبدیلی کی جانب گامزن رویہ جو بدلتے ہوئے زمانے اور سائنسی ارتقاء کی بدولت شعور کی فراوانی سے پھوٹا۔
ورنہ اس حوالے سے ماضی کا منظر نامہ بہت حد تک مختلف رہا۔ انگریز دور میں جاہلانہ اور بکاو ملائیت پیر پرستی اور وڈیرہ شاہی کے ذریعے پسماندہ معاشروں پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے حقائق سے دور اور بے ثمر مذہبی جذباتیت اور پروپیگنڈے کی طرف مسلسل دھکیلا جاتا رہا۔ لیکن آفرین ھے دھرتی کے ان روشن ضمیر اور سربلند بیٹوں پر جنہوں نے انتہائی ناسازگار موسموں اور مشکل ترین حالات میں شعور کا پرچم بھی لہرایا اور اپنے گریبانوں کو بھی چاک کیا۔ احمد خان کھرل سے باچا خان اور عبیداللہ سندھی سے شیخ محمد طاہر پنج پیر تک ایک توانا اور دلیر لیکن قابل فخر سلسلہ ھے جو تب بھی “رائج دستور” کے خلاف بولتے اور لہولہان ہوتے رھے۔
انیس سو سینتالیس میں منظر نامہ بظاہر تبدیل ہو جاتا ھے لیکن درحقیقت صورتحال جوں کی توں ھے۔ اسی لئے تو اول روز سے مقامی ایسٹبلشمنٹ کے ھاتھ آتی ہوئی طاقت “پرانے ڈگر” پر چل پڑتی ھے۔ جس سے بلآخر ایوب خان کا طویل مارشل لاء ایبڈو بنیادی جمہوریت فاطمہ جناح کی غدداری کنونشن مسلم لیگ اور عشرہ ترقی جیسے فریب کاریوں اور ڈرامہ بازیوں سمیت برآمد ہوتے ہیں۔ جسے ریڈیو پاکستان نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات قدرت اللہ شہاب الطاف گوہر اور زیڈ اے سلہری جیسے نام نہاد صحافی لہراتے اور عوام کو جھوٹے پروپیگنڈے سے درغلاتے رھے۔ طرفہ تماشا ملاحظہ ہو کہ ایوب خان یحیی سے اقتدار کی جنگ ھار کر رخصت ہو جاتا ھے تو “روایت ” نبھاتے ہوئے اس ڈکٹیٹر کو ھیرو کے روپ میں پیش کرنے کا سلسلہ چل پڑتا ھے اور پھر ٹرکوں اور آئل ٹینکروں پر ایک ڈکٹیٹر کی دیدہ زیب تصویریں “کہیں “سے اچانک” نمودار” ہونے لگتی ہیں۔ جس کے نیچے “تیری یاد آئی تیرے جائے کے بعد “کا کیپشن بھی لکھا ہوتا ھے۔ جو بے خبر اور پسماندہ معاشرے کے ذہنوں اور زبانوں پر من گھڑت کہانیاں اور “ایوب خان کا دور اچھا تھا” ایک بے مجرمانہ غفلت کے ساتھ چڑھا دیتے ہیں۔ یحیی خان کا جنرل رانی پانے اور آدھا پاکستان کھونے کے بعد “سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین” اور منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھانے والے ضیاء الحق کا پی ٹی وی پر لائیو دکھاتا جنازہ اور اظہر لودھی کی آہ و زاری “خوابیدہ ” معاشرے کو مزید خوابیدہ بنا دیتے ہیں۔
لیکن پھر اچانک کہیں سے انٹرنیٹ سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز نمودار ہوتے ہیں اور “رنگ میں بھنگ” ڈال دیتے ہیں۔ یہی وہ جدید اور تازہ دم منظر نامہ ھے جو ماضی کے برعکس شعور کی روشنی اور خبر کی رسائی سے لیس بھی ھے۔ جو قانون کی یکساں عملداری سے بھی واقف ھے اور قانون سے خود کو بالاتر سمجھنے والے اس طبقے سے بھی جو اب بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ یہ معاشرہ ماضی کی مانند ابھی تک خوابیدہ ھے۔ حالانکہ جنرل پرویز مشرف کی موت پر دیا گیا خلاف معمول اور چونکا دینے والا ردعمل اور مرحوم جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے کی گونج سے تشکیل پاتا منظر نامہ پروپیگنڈے کی بے ثمر اور بوسیدہ شاخوں سے لٹکے ہوئے ماضی سے دامن چھڑاتا بھی نظر آ رہا ھے اور مستقبل کی حقیقت شناس اور ثمر بار بود و باش سے ہم آھنگ فضاوں کی جانب گامزن بھی۔