نواز شریف کب آئے گا؟ نواز شریف کیوں نہیں آ رہا؟ نواز شریف آئے گا بھی یا نہیں؟
بالآخر نواز شریف کی واپسی کی تاریخ (21 اکتوبر) دے دی گئی ہے اور مسلم لیگ نواز کی جانب سے بھرپور استقبال کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ نواز شریف کی واپسی کے اعلان کے بعد اب سب کے لبوں پر یہی ایک سوال ہے کہ نواز شریف واپس آ کر کیا کر سکتے ہیں؟
مستقبل کو تو اللّٰه تعالٰی کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا لیکن اگر نواز شریف کے ماضی کی جانب نظر دوڑائیں تو کچھ اندازے لگائے جا سکتے ہیں کہ نواز شریف واپس آ کر کیا کر سکتے ہیں۔
نواز شریف کو ملکِ خداداد پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کا شرف حاصل ہو چکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ تینوں مرتبہ انہیں اپنے منصب کی مدت مکمل نہیں کرنے دی گئی۔ نواز شریف کے تینوں ادوار پر نظر دوڑائی جائے تو ایک حقیقت بالکل واضح طور پر نظر آتی ہے اور وہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے کی جانے والی محنت ہے۔ موٹرویز، بجلی کے کارخانے، میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، سی پیک اور گوادر میں ترقیاتی کاموں سمیت کئی ایسے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس ہیں جن پر نواز شریف کے تینوں ادوار میں کام ہوا اور وہ پایہ تکمیل تک بھی پہنچے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِس مرتبہ جب نواز شریف واپس آئیں گے تو الیکشن سے قبل وہ ایک بار پھر عوام کو مزید ڈویلپمنٹ کی نوید سنائیں گے اور کیا عوام یہی سننا چاہتے ہیں؟ اسکا جواب نفی میں ہو گا کیونکہ آج صورتحال بہت مختلف ہے۔ آج ایک ایسا وقت ہے کہ جب مہنگائی تاریخی بلندی پر ہے، عوام کو دو وقت کی روٹی کی فکر لاحق ہے، بچوں کے سکول کی فیس کی فکر لاحق ہے، بجلی کے بل ادا کرنے کی فکر لاحق ہے، گیس کے بل ادا کرنے کی فکر ہے، پٹرول تاریخی بلندی پر ہے جس کی وجہ سے گاڑی تو کیا موٹر سائیکل چلانا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
عوام کیا چاہتے ہیں؟
جس مشکل صورتحال سے پاکستان کے عوام دوچار ہیں، یہاں ان کو اب امید کی ایک کرن چاہیے، وہ ٹنل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کوئی روشنی چاہتے ہیں، ایسی روشنی جو ان کو مشکلات کے ان اندھیروں میں کوئی راستہ دکھائے، وہ روشنی جو ان کو اندھیروں سے اجالوں کی جانب لے کر جا سکے۔
ایسی مشکل صورتحال میں نواز شریف پھر عوام کو واپس آ کر کیا دے سکتے ہیں اور کس چیز کی نوید سنا سکتے ہیں؟
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی ایک بڑی وجہ سیاسی استحکام ہوتا ہے، اگر کسی ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو اس ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے اور جب تک معاشی استحکام نہیں ہو گا تب تک ملک میں عوام خوشحال نہیں ہو سکتے، معاشی استحکام ہو گا تو انڈسٹری لگے گی، معاشی استحکام ہو گا تو صنعت کا پہیہ چلے گا، معاشی استحکام ہو گا تو فارن انویسٹمنٹ آئے گی اور جب یہ سب کچھ ہو گا تو لوگوں کو روزگار مہیا ہو گا اور جب زیادہ سے زیادہ لوگ روزگار سے منسلک ہوں گے تو ان کی قوتِ خرید بڑھے گی جس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی اور جب معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی تو ملک معاشی طور پر آگے یعنی ترقی کی جانب بڑھے گا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کیا نواز شریف پاکستان میں معاشی استحکام لا سکتے ہیں؟
اسکا جواب جاننے کیلئے ہمیں چند برس پیچھے یعنی 2013 سے 2018 کی جانب جانا ہو گا، وہ وقت جب نواز شریف کے دورِ حکومت میں ملکی معیشت ایک درست سمت کی جانب گامزن تھی، ملک میں صنعت کا پہیہ چل رہا تھا، بجلی کے کارخانے لگ رہے تھے، لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہو چکا تھا اور اس سب کی وجہ سے ڈویلپمنٹ کا کام آگے بڑھ رہا تھا، جب صنعت کا پہیہ چلتا ہے تو روزگار بڑھتا ہے، جب کارخانے لگتے ہیں تو روزگار بڑھتا ہے، جب ڈویلپمنٹ ہوتی ہے تو روزگار بڑھتا ہے اور یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جب روزگار بڑھتا ہے تو معاشی مسائل میں کمی آتی ہے، روزگار بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈسپوزایبل انکم میں اضافہ ہوتا ہے جو ملکی معیشت میں بہتری کی ایک بھرپور علامت ہوتی ہے۔
نواز شریف اگر واپس آ کر عوام کو روشنی کی یہ کرن دکھانے اور یہ نکتہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ معاشی ترقی سے ہی ملکی ترقی ممکن ہے تو پھر ان کیلئے آئندہ الیکشن میں ایک بہتر صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ کسی بھی ملک کی معاشی بہتری کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے تو اب سوال یہ بھی ہے
کیا نواز شریف واپس آ کر پاکستان کو وہ سیاسی استحکام دے سکتے ہیں؟
نواز شریف اس سے قبل اپنی مخالف سیاسی قوت پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کر چکے ہیں اور دوسری کئی جماعتوں کو اپنے ساتھ لے کر چل چکے ہیں، 2013 کا الیکشن جیتنے کے بعد وہ خود اپنے سب سے بڑے مخالف عمران خان کے گھر چل کر جا چکے ہیں۔
اب نواز شریف کو واپس آ کر ایک بار پھر بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا، پاکستان کو جوڑنے کی بات کرنا ہو گی، معاشی چارٹر پیش کرنا ہو گا، ایک چارٹر آف اکانومی طے کرنا ہو گا، مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور اس کا مظاہرہ وہ پہلے بھی کر چکے ہیں۔
لیکن کیا اِس مرتبہ ایک بار پھر وہ اپنے سب سے بڑے حریف عمران خان کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کیلئے تیار ہوں گے؟
پاکستان اس وقت جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس میں کوئی ایک اکیلی جماعت اس کا حل نہیں دے سکتی اور نواز شریف پاکستان میں شاید وہ واحد سٹیٹس مین ہیں جو زیادہ تر جماعتوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں، ان کے پاس تجربہ بھی ہے اور ویژن بھی موجود ہے۔
کیا نواز شریف اکیلے ایسا کر سکتے ہیں؟
نواز شریف یہ سب اکیلے کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں ریاست کے دوسرے اہم ستونوں کا ساتھ بھی درکار ہو گا یعنی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا ساتھ ضروری ہو گا، نواز شریف اگر پاکستان کی بہتری کا بیڑا اٹھاتے ہیں لیکن ریاست کے دوسرے دونوں یا کوئی ایک اہم ستون ان کا ساتھ نہیں دیتے تو پھر پاکستان کو اس مشکل سے نکالنا اور آگے لے کر جانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے، اس مشکل صورتحال سے نکالنا ہے، عوام کی زندگیوں کو سہل بنانا ہے، ان کی پریشانیوں کو دور کرنا ہے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے تو پھر نواز شریف کو واپس آ کر سب سے بات کرنا ہو گی اور مستقبل کا ایک ٹھوس لائحہ عمل سامنے رکھنا ہو گا تاکہ یہ ملک آگے بڑھ سکے۔
یقیناً نواز شریف یہ سب کچھ کر سکتے ہیں!۔
Excellent and beautiful piece of writing