میرے دونوں بیٹوں پرحملہ کیا گیا اور میری بیٹی جو یونیورسٹی کی طالبہ تھی اسکو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی یہ انکشاف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے معروف صحافی عمار مسعود کو اپنے حالیہ دیے گئے انٹریو میں پہلی بار بتائی۔
جسٹش شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید میرے گھر آئے اور کہا ہم پتہ کرنا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کے کیس کا کیا بنے گا میں نے کہا کہ اس میں بری بھی ہوسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں سزا تو ضرور ہونی ہے بس یہ پتہ کرنا چاہتے ہیں کہ اسکے بعد ہائیکورٹ میں کیا ہوگا۔
انکا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید نے مجھ سے پوچھا کہ اگر نواز شریف کا کیس آپکے پاس اپیل میں آتا ہے تو آپ کیا کرینگے تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو میرٹ پر فیصلہ کرونگا تو اس پر انہوں نے وہ تاریخی جملہ کہا کہ، “اس طرح تو ہماری دو برس کی محنت ضائع ہوجائیگی”۔
جسٹس شوکت صدیقی نے بتایا کہ میں نے جنرل فیض حمید سے سوال کیا کہ آپ نے مجھے ڈویژن بنچ سے کیوں ہٹوایا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے بڑوں ثاقب نثار سے بات کرکے آپکو ہٹوایا ہے۔
اس موقع پر سابق جج نے بتایا کہ جونہی پانامہ سے منسلک کیسز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشنز آنا شروع ہوئیں تو مجھے اچانک ڈویژن بنچ سے ہٹا دیا گیا۔
شوکت صدیقی نے کہا کہ عام تاثر یہ ہے مجھے فوج نے نکلوایا عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ فوج عدلیہ کا کندھا استعمال کرتی ہے لیکن میرے کیس میں عدلیہ نے فوج کا کندھااستعمال کیا ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے کیونکہ 26 نومبر 2018 کو میں نے چیف جسٹس بن جانا تھا جبکہ ثاقب نثار کا ٹارگٹ اپنے شاگرد جسٹس عامر فاروق کوسینئر جج بنوانا تھا۔
میاں نواز شریف کیخلاف پانامہ کیس میں دی گئی ججمنٹ کے بارے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پانامہ ججمنٹ کو ایک نہ ایک دن تاریخ کوڑے دان میں ضرور پھینکا جائیگا کیونکہ ایسے فیصلے کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی انکا کہنا تھا کہ اس ججمنٹ میں نہ صرف میاں نواز شریف کے ساتھ زیادتی کی بالکہ قانون کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی گئی انہوں نے مزید کہا کہ مجرم نواز شریف نہیں ہیں بالکہ مجرم جسٹس منیر سے لیکر آج تک انکی باقیات مجرم ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے انٹرویو میں بتایا کہ عدالتوں سے فیصلے اکیلے جنرل فیض حمید بطور ڈی جی آئی ایس اکیلے نہیں کروا رہے تھے بالکہ اس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر بھی انکے ساتھ تھے ان میں تال میل مکمل موجود تھی۔
اس موقع پر انکا کہنا تھا کہ ہماری سپریم کورٹ فیصلے یا رومانس میں آکر کرتی ہے یا دباو کے تحت کرتی ہے۔
اپنے نکالے جانے کے فیصلے بارے سابق جج نے بتایا کہ جس سپریم جیوڈیشل کونسل نے مجھے نکالنے کی سفارش کی تھی اس باری باری بننے والے تینوں سابق چیف جسٹس جن میں ثاقب نثار آصف سعید کھوسہ اور گلزار احمد شامل تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس عطا بندیال سے امید تھی کہ وہ میرے خلاف پرسنل نہیں ہونگے لیکن سب سے زیادہ مایوسی انہی سے ہوئی کیونکہ جب صرف ایک سماعت باقی رہ گئی تو انہوں نےدو ججز کی ریٹائرمنٹ تک اسکو لٹکایا جسکی وجہ سے بنچ ہی ٹوٹ گیا۔
معروف صحافی عمار مسعود کے ساتھ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا تاریخی انٹرویو انکےچینل پر دیکھا جاسکتا ہے۔