تجزیہ: امریکی اخبار دی انٹرسیپٹ نے مبینہ سائفر کا غیر تصدیق شدہ متن شائع کر دیا

امریکی نیوز ویب سائٹ "دی انٹر سیپٹ" نے مبینہ سائفر کا متن شائع کر دیا جس کی تصدیق سے ادارہ خود بھی انکار کر رہا ہے جبکہ یہ ڈاکومنٹ کسی نامعلوم ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان اپنے پاس موجود سائفر کی کاپی گم ہو جانے کا اعتراف کر چکے ہیں۔

spot_img

واشنگٹن/اسلام آباد/لندن—امریکی نیوز ویب سائٹ ”دی انٹر سیپٹ“ نے اس سائفر کی کاپی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کے متعلق پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ امریکہ نے دباؤ کے تحت انہیں اقتدار سے بےدخل کروایا ہے جبکہ عمران خان کے اس مؤقف کے بعد یہ موضوع مسلسل سیاست کا حصہ رہا ہے۔

دی انٹر سیپٹ نے مبینہ سائفر کی کاپی کا متن اپنی ویب سائٹ پر شائع کر دیا ہے جبکہ ادارہ کے مطابق انہیں یہ دستاویز پاکستانی فوج کے کسی نامعلوم ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے۔

امریکی نیوز ویب سائٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس ڈاکومنٹ کی تصدیق کیلئے بھرپور کوششیں بھی کی گئی ہیں مگر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

دی انٹر سیپٹ کی جانب سے شائع ہونے والے مبینہ سائفر کے ٹیکسٹ کے مطابق اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید نے لکھا کہ امریکی معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے ان کے ساتھ ملاقات میں روس یوکرین معاملہ کے متعلق پاکستان کی خاموشی پر امریکہ اور یورپین ممالک کی حیرت سے آگاہ کیا۔

مبینہ سائفر کے متن کے مطابق ڈونلڈ لو نے اسد مجید سے کہا کہ یہ خاموشی پاکستانی وزیراعظم کی پالیسی ہے۔ پاکستانی سفیر نے استفسار کیا کہ کیا امریکہ کا یہ سخت مؤقف اقوامِ متحدہ میں یوکرین سے متعلق قرارداد کے دوران غیر حاضری کے باعث ہے، اس پر ڈونلڈ لو نے جواب دیا کہ یہ رویہ عمران خان کے دورہ روس کے باعث ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان یہ سب کچھ اسلام آباد میں جاری پولیٹیکل ڈرامہ میں ایک پبلک فیس دکھانے کیلئے کر رہے ہیں۔

“دی انٹر سیپٹ” کے مطابق ڈونلڈ لو نے اسد مجید سے گفتگو کے دوران کہا کہ عمران خان اس معاملہ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور میرا یہ خیال ہے کہ اگر پاکستانی وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو امریکہ سب کچھ بھلا دے گا لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو آنے والے وقت میں حالات بہت مشکل ہو سکتے ہیں۔

امریکی نیوز ویب سائٹ کے مطابق مبینہ خفیہ پیغام میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید نے ڈونلڈ لو کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال بیان کرنے کے بعد لکھا کہ ہمیں ڈونلڈ لو کے اس تبصرے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے، ڈونلڈ لو کے ڈی مارش کے جواب میں ہمیں بھی ایک مناسب ڈی مارش دینا چاہیے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اس مبینہ سائفر کے درست یا غلط ہونے کے متعلق تصدیق یا تردید سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ پرائیویٹ ڈپلومیٹک ایکسچینجز پر تبصرہ نہیں کرتا تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے الزامات جھوٹے ہیں، جھوٹے تھے اور ہمیشہ جھوٹے ہی رہیں گے۔

ایک معمول کی پریس کانفرنس کے دوران دی انٹر سیپٹ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ”میتھیو ملر” نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ واقعی پاکستانی دستاویز ہے یا نہیں، میں اس دستاویز میں رپورٹ کیے گئے کمنٹس کے بارے میں بھی کوئی تبصرہ نہیں کروں گا لیکن اگر اس رپورٹ میں بیان کیے گئے کمنٹس کو درست بھی تصور کر لیا جائے تب بھی اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ نے ایسا کوئی مؤقف اختیار نہیں کیا کہ پاکستان کا سربراہ کس کو ہونا چاہیے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ ہم نے پرائیویٹ طور پر پاکستانی حکومت کے ساتھ اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا جیسے ہم نے عمران خان کے دورہ روس کے متعلق،جو اسی دن کیا گیا جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا” واضح طور پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ میں اس دستاویز کے درست یا غلط ہونے کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر اس ڈاکومنٹ کو درست مان بھی لیا جائے تو اس سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ امریکہ کو پاکستانی وزیراعظم کے دورہ روس پر تحفظات تھے جن کا اظہار کیا گیا لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ امریکہ نے پاکستان میں قیادت کے متعلق یا حکومت کی تبدیلی کے متعلق کوئی ترجیح بیان کی ہے یا کوئی مؤقف اختیار کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان کمنٹس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا گیا ہے اور ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہو کہ انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے اور اس کو ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کیا جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی کے آغاز میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی گئی، وزیراعظم کے عہدے پر فائز عمران خان نے اس تحریکِ عدم اعتماد کو اسلام آباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سازش قرار دیا اور کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرا کر اس کو دھمکی آمیز امریکی خط قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے خط لکھ کر یہ دھمکی دی ہے کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف نہیں کرے گا۔

تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے بےدخل ہونے کے بعد عمران خان نے سیاسی و فوجی قیادت پر امریکی سازش کا حصہ بننے کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا اور اس بیانیہ کی بنیاد پر سیاسی و فوجی قیادت کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔

اکتوبر 2022 میں ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ سائفر کی جو کاپی میرے پاس تھی وہ کہاں غائب ہو گئی ہے۔

عمران خان نے رواں برس مئی میں اپنے بیانیہ سے یوٹرن لیتے ہوئے امریکی کانگریس کی خاتون رکن میکسین واٹرز سے ”زوم“ پر ویڈیو لنک کے ذریعہ گفتگو کے دوران اپنی حکومت گرانے کا سارا ملبہ افواجِ پاکستان، آئی ایس آئی اور سیاسی قیادت پر ڈال دیا جبکہ سیاسی و فوجی قیادت کے خلاف امریکہ سے مدد کی بھی اپیل کر دی تھی۔

گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے مجسٹریٹ کے سامنے 164 کے تحت سائفر کے متعلق اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا ہے جس کے مطابق سائفر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ سائفر عمران خان کی ایک سوچی سمجھی سازش تھا۔

تحریکِ انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان نے اعظم خان کے اعترافی بیان کے بعد یوٹیوب کے ذریعہ ویڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سائفر میرے لیے نہیں بلکہ جنرل باجوہ کیلئے آیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اس بیان کے چند روز بعد یہ اعتراف بھی کر لیا کہ میں نے جلسہ میں جو خط لہرایا وہ سائفر نہیں تھا۔

Follow Us

The Thursday Times is now on Bluesky—follow us now. You can also follow us on Mastodon.

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: