اسلام آباد—نامزد چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافی وہ ہے جو تحقیقات کے بعد خبر دے اور جب رائے کا اظہار کرنا ہو تو آئین اور قانون کو مدنظر رکھنا چاہیے، ذمہ دارانہ صحافت وقت کی ضرورت ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صحافی خبر اور رائے میں فرق بھول جاتے ہیں، خبر اور رائے میں فرق ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے، جب بھی صحافی کسی معاملہ پر کوئی بات کرے تو بتائے کہ یہ رائے ہے یا خبر ہے، صحافیوں کو معلومات پہنچانی چاہئیں لیکن اگر وہ اپنی رائے دے رہے ہیں تو بتائیں کہ یہ میری رائے ہے، ایک اخبار یا کسی میڈیا سے منسلک ہونے یا کیمرہ اٹھانے سے کوئی صحافی نہیں بن جاتا بلکہ صحافی بننے کیلئے تحقیق بہت ضروری ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اپنی رائے بیان کرنے والے کو صحافی نہیں کہا جاتا، میڈیا کا بنیادی مقصد عوام تک درست معلومات پہنچانا ہے، واقعہ تو کوئی بھی بتا دے گا لیکن ایک تحقیق ہوتی ہے، جج اور صحافیوں کے کام میں زیادہ فرق نہیں کیونکہ دونوں ہمیشہ سچ کی تلاش میں رہتے ہیں، ہمارے ہاں میڈیا میں سچ اور رائے میں تفریق نہیں کی جاتی جس سے مجھے اختلاف ہے، میں آپ کے سچ سے انکار نہیں کر سکتا لیکن رائے سے اختلاف کر سکتا ہوں۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ مثبت صحافت کا معاشرے پر اچھا تاثر قائم ہوتا ہے، ایک بات جس کا آئین میں براہِ راست ذکر نہیں لیکن معنوی لحاظ سے ذکر ہے وہ سچ ہے، سچ اور انصاف کا گہرا تعلق ہے اور سچ کا ہمیشہ مثبت نتیجہ نکلتا ہے، دنیا کے تمام مذاہب میں سچ کو فوقیت دی گئی ہے، سچ تبدیل نہیں ہوتا، قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ سچوں کے ساتھ کھڑے رہو، میرا یہی پیغام ہے کہ ہر موقع پر سچ بولیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ فیصلہ آنے پر کوئی بھی فریق کہہ سکتا ہے کہ یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا، آئینِ پاکستان میں آزادیِ اظہارِ رائے کا حق دیا گیا ہے، یہ حق صرف صحافیوں کو نہیں بلکہ ہر شہری کو حاصل ہے، دوسرا حق یہ ہے کہ مفادِ عامہ میں عوام سے متعلق چیزوں کے متعلق آپ معلومات حاصل کر سکتے ہیں، آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔