لندن/راولپنڈی (تھرسڈے ٹائمز) — سابق وزیراعظم عمران خان نے برطانوی اخبار ٹیلیگراف میں مضمون لکھا ہے جس میں انکا کہنا ہے کہ پاکستان میں آج جمہوریت کی بقا کی جنگ جاری ہے، جہاں عوام اور فوجی اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ دو سال قبل، ایک منظم ووٹ عدم اعتماد کے ذریعے میری حکومت کو بے دخل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کی حکومت قائم کر لی۔
اسٹیبلشمنٹ اور آرمی چیف کی براہ راست رہنمائی میں میری پارٹی تحریک انصاف کی سیاسی میدان میں موجودگی کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے اوپر ہونیوالے ظلم، تشدد اور ہمارے انتخابی نشان کو چھینا گیا لیکن یہ سب کچھ کسی کام نہیں آیا اور تمام کوششیں ناکام رہیں۔
آٹھ فروری 2024 کو پاکستان کے عام انتخابات نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی کی مکمل ناکامی کو ظاہر کیا۔ ایسے ملک میں جہاں اکثریت ووٹروں کی پارٹی کے نشان سے رہنمائی ہوتی ہے، لوگوں نے مختلف علامات کے ساتھ آزاد کھڑے ہونے والے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ یہ جمہوری انتقام پاکستانی عوام کی فوجی ایجنڈے کے خلاف قومی مخالفت اور 9 مئی 2023 کے فوجی تنصیبات پر کیے گئے حملہ کے جھوٹے الزامات کے خلاف لیا گیا۔
بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے عوام کے مینڈیٹ کو قبول کرنے کی بجائے انتخابی نشان میں ہیرا پھیری کی اور ہارنے والوں کو اقتدار میں لایا گیا۔ جبکہ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی دھاندلی دیکھنے میں آئی۔
تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان پر ہونیوالے سلوک کیوجہ سے نتیجتاً آج پاکستان ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ عوام نے ریاستی انتخابی سازشوں اورپر ہونے والے جبر، قید و بند اور اذیتوں کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔ عسکری قیادت کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جو ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
ریاست کا جواب زیادہ ظلم اور تشدد کی شکل میں آیا ہے، جس میں صرف پارٹی کارکنوں پر ہی نہیں بلکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، خاص طورایکس پر پلیٹ فارم پر مکمل پابندی ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک پیش رفت عدلیہ کی آزادانہ کارکردگی کو ہر سطح پر تباہ کرنے کی منظم کوشش ہے۔ ججوں کو بلیک میلنگ اور خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے کے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں، جھوٹے الزامات پر ہمارے مقدمے چلائے جاتے ہیں جس میں کسی مناسب دفاع کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی ملک کے قانون اور آئین کی کوئی فکر ہوتی ہے۔
لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ارکان عدلیہ کی آزادی کو تباہ کرنے کی کوشش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ بہادر ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ان کے اور ان کے اہل خانہ کے ہراساں کرنے کے واقعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ اقدام ہماری تاریخ میں بے مثال ہے۔ بہت سے لوگوں کو معلوم تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، لیکن ان ججوں کی طرف سے ایسا خط آنے کا مطلب ہے کہ مایوسی، غصہ اور فرسٹریشن کی حد کو چھو لیا گیا ہے۔
عدالتی امور کی یہ افسوسناک حالت چیف جسٹس کی طرف سے دکھائی دینے والی ہچکچاہٹ سے ظاہر ہوتی ہے، جنہوں نے بالآخر کچھ کرنے پر مجبور محسوس کیا لیکن سپریم کورٹ کے فل بنچ کی سماعت بلانے اور چھ ججوں کے نامزد کردہ افراد کو طلب کرنے کے بجائے، انہوں نے ان چھ ججوں کو عملی طور پر کٹہرے میں ڈالنے کی کوشش کی۔
ملکی معیشت بحران میں گھری ہوئی ہے، قیمتوں میں اضافہ اور سیاسی طور پر ناراض عوام کا الیکٹورل مینڈیٹ چوری ہونے اور معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہونے کے ساتھ، ریاست الگ تھلگ کھڑی ہے۔ ریاست اپنی سنگین غلطیوں کو کم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان اس نازک موڑ پر پہنچا ہے اور ناقدین کے خلاف جبر اور تشدد کے اپنے منتر سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے، جو 1971 میں اختیار کیا گیا تھا، جب اس نے مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش کو کھو دیا تھا۔
اسی وقت میں پاکستان، دہشت گردی میں اضافے اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بیگانگی کا سامنا کر رہا ہے، جہاں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سرحدوں پر، بھارت پہلے ہی پاکستان کے اندر قتل و غارت گری کا اعتراف کر چکا ہے اور افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد بدستور غیر مستحکم ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کی یہ توقع کہ امریکا سے بلاشبہ حمایت ملے گی، بدلے میں فوجی مقاصد کے لیے امریکا کو فضائی حدود تک رسائی اور اس سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی کے بعد، امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق کے طریقوں سے متعلق تازہ ترین رپورٹس کی اشاعت کے بعد پنکچر ہوگئی ہے جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیاں نمایاں کی گئی ہیں۔
ایک بار پھر جب ایک جانب عوام کے ساتھ تصادم ہو تو دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی حمایت پر انحصار کرتے ہوئے نجات حاصل کرنے سے پاکستان کے لیے کوئی استحکام نہیں آئے گا۔ اس بحران سے نکلنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ عوام کا مینڈیٹ بحال کیا جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جن میں فوجی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کی آئینی فعالیت کو بحال کیا جائے۔
اسٹیبلشمنٹ نے میرے خلاف ہر ممکن کوشش کی، اب ان کے لیے بس مجھے قتل کرنا باقی رہ گیا ہے۔ میں کھلے عام کہہ چکا ہوں کہ اگر مجھے یا میری اہلیہ کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار ارمی چیف ہوں گے۔ لیکن میں نہیں ڈرتا کیونکہ میرا ایمان مضبوط ہے۔ میں غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔